یونان کے بعد روم


قدیم یونان سے اٹھنے والا ایک انقلابی مارچ، جس کی کمان دنیا کے نوجوان اور باصلاحیت جنگجو اور سپہ سالار سکندر یونانی کے ہاتھ میں تھی، جب ہندوستان پہنچا تو اس کی یہ آخری منزل ثابت ہوئی۔ ہندوستان تک یونانی سپہ سالار سکندر دی گریٹ کی تمام فتوحات اور کارنامہ عظیم ختم ہو جاتے ہیں۔ سکندر کی موت کے بعد یونان سے لے کر ہندوستان تک پھیلی سلطنت تک وہ ہوا جو ہر طاقت کے ٹوٹنے کے بعد ہوتا ہے۔ سکندر کے بعد موسٹ سینئر جنرلز نے ساری سلطنت آپس میں باہمی مشاورت سے بانٹ لی لیکن وہ تادیر اس یونانی سلطنت کو قائم نہ رکھ سکے۔

تاریخ یونان کے بعد رومنز کی باری آتی ہے جو کافی دیر تک دنیا کے ایک خطے پر قابض رہے اور عظیم سلطنت کے وارث رہے۔ اگر روما کا موازنہ یونانیوں سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یونانی مکمل طور پر فنون لطیفہ پر عبور رکھتے تھے۔ دوسری طرف رومنز عملی طور پر اصول حکومت میں اپنی مثال آپ تھے۔ یونانی فلسفہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور انہوں انسانی سوچ کے عروج کو چھوا لیکن رومی فنون حرب اور انتظامی معاملات میں ایک حد تک ماہر تھے۔

ان مختلف رجحانات اور مہارتوں کے باوجود گریک اور رومنز میں کچھ اقدار مشترک تھیں۔ جیسا کہ یونانی اور رومی زبان میں مشابہت پائی جاتی تھی۔ مذہبی اعتبار سے بھی دونوں اقوام میں مماثلت موجود تھی۔ بلاشبہ رومیوں کی عظمت و شان اور دیرپا سلطنت کے سامنے یونانی کسی طور پر برابر نہیں لیکن یونانی تاریخ کے ہر باب میں اولین کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

یونان کی طرح اطالیہ بھی ایک ایسے خطے پر مشتمل ہے جس میں پہاڑ، ندیاں اور دریا موجود ہیں۔ لیکن رومنز یونانیوں کی طرح شہری ریاستوں میں مکمل طور تقسیم اور آزاد نہیں تھے۔ روما دریائے ٹائبر کے اطراف میں دو اقوام کے روپ میں آباد تھے جن کا آپس میں معاشرتی، معاشی اور جغرافیائی تعلق حسب ضرورت موجود تھا۔ اسی دریا کے ایک کنارے پر لاطینی آباد تھے اور دوسرے کنارے پر اٹرسکن۔ وقت کے بہاؤ کے سبب دونوں قبائل ایک دوسرے میں ضم ہوتے چلے گئے۔ لیکن دونوں نے اپنی بنیادی شناخت بہر حال قائم رکھی۔

سیاسی طور پر رومنز بھی فارسیوں اور دیگر اقوام کی طرح بادشاہت تلے آگے بڑھتے رہے۔ تاریخ رومی بادشاہت بارے اتنا ضرور بتاتی ہے کہ سرویس ٹلیس ایک ایسا بادشاہ تھا جس نے پہلے پہل دریائے ٹائبر کے گرد ایک فصیل تعمیر کروائی۔ رومی بادشاہوں کا طرز حکمرانی اور معاملات ویسے ہی تھے جیسے شاعر ہومر کی نظموں میں لیجنڈز کا ذکر ملتا ہے۔ رومنز اپنے ملکی، جنگی اور سیاسی معاملات کی سر انجام دہی کے لئے بادشاہی نظام کے سہارے چلتے رہے۔

ان کے مخصوص بادشاہی نظام میں دو مجالس قائم تھی۔ ان میں ایک کا نام سینٹ تھا اور دوسری شہریوں کی مجلس تھی۔ ان دونوں مجالس کے باہمی تعلقات میں کوئی باقاعدہ قانون تو موجود نہیں تھا لیکن انتظامی معاملات کا کلی دارو مدار رسم و رواجات پر تھا۔ قریبا 510 ق م میں روم سے بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا اور پھر یونان کی طرز پر جمہوریت نے بادشاہت کی جگہ لی۔

بادشاہت کا ذکر دنیا کے جس خطے میں بھی ہوتا ہے وہاں جبر، ظلم اور متعلق العنان طرز حکمرانی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ دنیا کے قریبا ہر بادشاہ کو لا محدود قسم کے اختیارات حاصل ہوتے تھے جن کی مدد سے وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کی بات حکم کی حیثیت رکھتی تھی۔ بادشاہت میں عوامی امنگوں اور حقوق کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ اہل روم کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خیر بادشاہت کے اختتام اور جمہوریت کی بنیاد کے بعد شاہی اختیارات کا خاتمہ ہو گیا۔

رومی جمہوریت میں دستور کے مطابق دو مجسٹریٹوں کو اختیارات تفویض کر دیے گئے۔ ان مجسٹریٹوں کا انتخاب مجالس کے ذریعے عمل میں لایا جاتا اور ان کی مدت ملازمت صرف ایک سال کے قلیل عرصے پر محیط ہوتی۔ ان سے فوج کی سپہ سالاری اور شہر کے انتظامی معاملات چلائے جاتے۔ ظاہری طور پر ان مجسٹریٹوں کو طاقتور اختیارات حاصل تھے لیکن عملی طور پر ان کو سینٹ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا اور ادارے کا انتہائی احترام ان پر لازم ہوتا۔ دوسری طرف ان کی محدود ترین مدت ملازمت بھی ان کے حدود سے تجاوز میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔

جیسے جمہوریت میں آئین و قانون ساز اسمبلیوں کو طاقت کا اصل مرکز سمجھا جاتا ہے بالکل اسی طرح روم میں بھی سینٹ کو طاقت کا اصل سرچشمہ تصور کیا جاتا تھا۔ سینٹ کے ممبران کو ریاست کے خواص الیکٹ کرتے اور ان اکابرین کی رکنیت دائمی اور تادم مرگ ہوتی۔ ان ممبرز کے حقیقی فرائض تو بطور مشیران کے ہوتے لیکن رفتہ رفتہ ان خواص کے مجموعے نے تمام اختیارات سلب کر لیے۔ ان ممبران سینٹ کے علاوہ رومی جمہوریت میں تیسرا عنصر بھی شامل تھا۔ یہ عنصر وہ لوگ تھے جو ایسے گروہ پر مشتمل تھے جن کو کمیٹیا کا نام دیا جاتا۔ ان کمیٹیا میں شہری اپنے فوجی مرتبے اور عہدوں کی بنیاد پر شرکت کرتے تھے۔ سینٹ کی کارروائی میں ان کی شرکت بطور آراء تھی جو ایسے ترتیب دی گئی تھی کہ اس میں دولت مندی کا عنصر غالب تھا۔

رومی جمہوریت بھی وقت کے ساتھ ساتھ مطلق العنان ہو گئی۔ اس میں وہی بادشاہت جیسا عمل دخل پیدا ہوتا گیا۔ یوں عوام کے تفویض کردہ تمام اختیارات کا خاتمہ انہی چنے ہوئے سینٹرز کے ہاتھوں ہوا۔ لیکن اس بربادی کے سارے پراسس کو بھی تمام ہوتے قریبا پانچ سو سال کا عرصہ لگا۔ جمہوریت کے خاتمہ کا سب سے بڑا سبب خانہ جنگی تھی جس میں طبقاتی تقسیم اور اختیارات کی ناجائز تقسیم شامل حال رہی۔ یہ خانہ جنگی اس قدر شدید ہو گئی کہ ایک ایسا وقت آیا جس میں یہ محسوس ہوتا تھا کہ سلطنت کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے۔

روما کے دو گروہ تھے : پیٹری شین اور رزیل۔ ایک کو شہری حقوق حاصل تھے جبکہ دوسرا گروہ ان سے محروم تھا۔ پہلے گروہ میں روم کے شرفا تھے جو قدیم روم میں نسل در نسل آباد تھے اور دوسرے گروہ میں وہ قبائل تھے جو مختلف مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ حقوق کی یہ غیر منصفانہ تقسیم دونوں گرہوں کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے گئی۔ رزیل نے پیٹری شین کا مکمل بائیکاٹ کر دیا اور دور ایک پہاڑی پر جا بسے۔ پھر بھی شرفا اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ آخر کار رزیل نے یہ اعلان کیا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ سینٹ سے مکمل علیحدگی اختیار کر لیں گے۔ اس اعلان نے شرفا کو مطالبات ماننے پر مجبور کر دیا اور یوں یہ کرائسس ختم ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments