سیاسی کڑھی کے پکوڑوں میں آلو


پاکستانی سیاست جس طرح کے بحران سے دوچار ہے اسے کسی صورت ”سیاسی کھچڑی“ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے ”کڑھی پکوڑے“ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کڑھی کے پکوڑے میں ”آلو“ کی آمیزش بھی کردی گئی ہے اور یہی وہ آلو ہے جو کڑھی پکوڑے جیسے ”زود ہضم“ عظیم سالن کو ”بادی“ بنا دیتا ہے اور ”تیزابیت“ پیدا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ قدیم تاریخ میں لکھا ہے کہ کڑھی کے سالن کی ابتدا ء ”راجھستان“ سے ہوئی، یعنی کڑھی ایک ”مارواڑی سالن“ ہے اب یہ سالن پاک و ہند کے ہر خطے میں بنایا جاتا ہے جبکہ اس کے انداز اور اجزاء میں کچھ فرق آ گیا ہے تاہم اپنی نوعیت اور ہیئت میں اسے کڑھی سالن ہی کہا جاتا ہے جس میں راجستھانی، مارواڑی، گجراتی، سندھی، اور پنجابی ”کڑھی “ غیر معمولی شہرت رکھتی ہیں۔

راجستھانی صحرا کے اس سالن کو دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے پہلے پنجاب، گجرات اور ہریانہ جیسی قریبی ریاستوں نے اپنایا اور اس میں اپنے ذائقے اور ڈھنگ کے مطابق آمیزش بھی کی جبکہ راجھستان میں یہ کڑھی آج بھی دہی، لسی اور بیسن سے تیار کی جاتی ہے اور اسے مزید ذائقہ دینے کے لیے اس میں بیسنی پکوڑے ڈالے جاتے ہیں۔ بھارتی گجرات میں کڑھی میں پکوڑے نہیں ڈالے جاتے جبکہ پنجاب میں کڑھی میں پکوڑے ڈالے جاتے ہیں لیکن ساتھ ان پکوڑوں میں ”آلو“ کی آمیزش ”کی جاتی ہیں، یعنی پنجاب میں کڑھی کے سالن میں جو پکوڑے ڈالے جاتے ہیں وہ آلو والے پکوڑے ہوتے ہیں۔

جہاں تک پکوڑوں کا تعلق ہے تو بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ دیگر خطوں میں بھی پکوڑوں میں آلو ڈالے جاتے ہیں، بلکہ آلو والے پکوڑے بنائے جاتے ہیں لیکن کڑھی کے پکوڑوں میں آلو کی آمیزش کی بدعت پنجاب سے شروع ہوئی ہے۔ اس طرح کڑھی پکوڑے کا سالن اب آلو کی آمیزش کے بعد“ آلو والے پکوڑے کی کڑھی ”ہوگیا ہے۔ بہر کیف کڑھی کا ذکر یہاں بہت زیادہ ہو گیا ہے جبکہ میرا مقصد قطعاً کڑھی پکوڑے کی مدح اور ہجو کہنا نہیں ہے بلکہ پاکستانی سیاست میں پکنے والی“ کڑھی پکوڑے ”میں پائے جانے آلو کی تلاش ہے جس کی وجہ سے ملکی سیاست عدم استحکام سے دوچار ہے، یعنی سیاسی بحران جسے ہم“ بادی اور تیزابیت ”سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کڑھی کے پکوڑے سے آلو نکال دیے جائیں تو کیا وہ واقعتاً زود ہضم“ ہو جائے گی جیسا اوپری سطور میں بیان کیا گیا ہے، حکماء اور اسلاف تو یہی بیان کرتے آئے ہیں۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی سیاست سے وہ آلو تلاش کیا جائے جو کڑھی کو ”باسی“ بھی نہیں ہونے دے رہا ہے بلکہ اس کو ”ابال پر ابال“ دے رہا ہے۔ اردو لغت میں ایک محاورہ ہے کہ ”باسی کڑھی میں ابال آنا“ ۔ اس محاورے کے معانیٰ اور مفہوم یہ ہے کہ ”موقع یا وقت گزرنے کے بعد جوش پیدا ہونا، وقت گزرنے پر کسی کام کا خیال آنا۔ جیسا کہ غالب نے اپنے خط میں اس محاورے کا یوں استعمال کیا ہے“ خیر اب بہت دن کے بعد شکوہ کیا لکھا جائے، باسی

کڑھی میں ابال کیا آئے ”۔ اسی طرح اردو لغت میں اس کے معانیٰ“ بڑھاپے میں جوانی کی وضع ہونا ”بھی بیان کیا گیا ہے۔ بات ہو رہی تھی ملکی سیاست جہاں ایک ایسے آلو کی آمیزش ہو گئی جو سب کے پیٹ میں درد کیے بیٹھا ہے لیکن اس درد کا علاج نہیں ہو پا رہا ہے بلکہ اس کی تشخیص بھی نہیں کی جا رہی ہے اس بیماری کو کیا نام دیا جائے اور اس کے علاج کے لیے کیا دوا تفویض کی جائے۔ جہاں تک اردو لغت کے اس محاورے کا ذکر کہ“ باسی کڑھی میں ابال آنا ”کے معانیٰ اور مفہوم کی بات ہے تو اس کی“ تشریحات ”میں جاکر اس آلو کی تلاش ممکن ہے جس میں موقع یا وقت گزرنے کے بعد جوش پیدا ہوا ہے اور وقت گزرنے پر کسی کام کا خیال آیا ہے۔

یعنی موقع اور وقت پر وہ آلو ادھر ادھر لڑکنے کی بجائے کہیں ساکت ہو پڑا رہا لیکن جب موقع اور وقت دونوں ہاتھ سے نکلنے لگے تو اسے خیال آیا کہ وہ تو کچھ کرنے سے پہلے ہی نکالا جا رہا ہے یعنی کڑھی کے پکوڑے میں جو آلو کی آمیزش کی گئی تھی اسے ختم کیا جا رہا ہے تا کہ غذا کو زود ہضم بنایا جا سکے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ راقم الحروف کا یہ عریضہ محض علامتی ہے اگر اس مضمون میں پائے جانے والے آلو کے کردار سے کوئی سیاستدان مماثلت رکھتا ہے تو یہ محض اتفاق ہو گا کیوں کہ راقم الحروف بذات خود“ مارواڑی ”خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور وہ کڑھی پکوڑے کے سالن کے عظیم ہونے کی مرتبت سے خوب واقف ہے یہی وجہ ہے کہ اس مضمون میں کڑھی اور پکوڑے کی قدرو منزلت بیان کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی ایسی کڑھی پکوڑے کی ہجو بھی کی گئی ہے جس میں کڑھی کے پکوڑے میں آلو کی آمیزش کر دی جاتی ہے۔

آج مضمون لکھنے سے پہلے راقم الحروف نے آلو قیمہ کھایا ہے جو کہ ایک بہترین ملغوبہ ہے اور بھرپور ذائقہ رکھتا ہے لیکن راقم الحروف کو کڑھی کے پکوڑے میں آلو کی آمیزش پر اعتراض ہے کیونکہ اس طرح کی بدعت سے یقیناً انسانی معدہ تکلیف سے گزرتا ہے لہذا ملکی سیاست ہو یا پھر کڑھی پکوڑا ہو اسے اس کے فطری تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ ہر خطے میں غذا کے لیے جو سالن بنائے جاتے ہیں وہ اپنے ایک ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد ہم تک پہنچے ہیں لہٰذا اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ممبئی کی بریانی آج کراچی کی بریانی کہلاتی ہے اسی طرح حیدر آباد دکن کے تیز مصالحوں کے کھانے برصغیر کے دیگر حصوں میں بھی کھائے جانے لگے ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ یہ دکنی کھانے ہیں۔ لہٰذا اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ راجھستان سے نکلنے والی“ کڑھی پکوڑا ”لازمی نہیں کہ وہ پنجاب میں آ کر بھی کڑھی پکوڑا ہی رہے بلکہ وہ پنجاب میں آلو کے پکوڑے والی کڑھی بن گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments