ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی فتح اور سیاست پر اس کے مضمرات


جب عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا فیصلہ ہوا اس وقت معاشی ابتری اور پنجاب میں حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے وہ خاصے غیر مقبول ہو چکے تھے۔ کئی حلقوں میں الیکٹیبلز ان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کترا رہے تھے۔ جن حلقوں میں اس دوران جب انتخابات ہوئے تو ان کی پارٹی تحریک انصاف شکست سے دوچار ہوئی۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان کی پارٹی میں سے درجنوں ارکان قومی اسمبلی پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ٹکٹ ملنے کے وعدے پر منحرف ہونے پر تیار ہو گئے۔ اتحادی ان سے شاکی تھے کہ ان سے کسی معاملے پر مشاورت نہیں ہوتی۔ ان کو براہ راست ڈیل کرنے کی بجائے ایجنسیوں کے ذریعے ان سے رابطہ ہوتا رہا لہذا انھوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔

اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے کچھ عرصہ پہلے جب عمران خان نے ٹی وی پر آ کر بیان دیا کہ اگر ان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو وہ اور خطرناک ہو جائیں گے ان کے اس بیان پر ان کا مذاق اڑایا گیا۔ اپنے آپ کو افلاطون سمجھنے والے سیاستدان یہ کہتے پائے گئے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر کپتان کے سر سے دست شفقت اٹھا لے تو وہ سیاسی منظر نامے میں ایک مردہ گھوڑے سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں رہیں گے۔ مگر پھر جب ان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا اور اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی تو یہ سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔

پبلک ان کی حمایت میں بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئی ان کی کھوئی ہوئی مقبولیت نہ صرف واپس آئی بلکہ ان کے غیر ملکی سازش کے بیانیہ کی بھرپور پذیرائی سے ان کی عوامی حمایت آسمان کو چھوتی نظر آئی۔ اور پھر جب ان کے سیاسی مخالفین اپنے دعووں کے برعکس مہنگائی کا طوفان لے آئے تو لوگوں نے ان کی تمام ناکامیوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ پچیس مئی کو ان کی لانگ مارچ کی کال پر ملک کے کونے کونے سے ہزاروں نوجوانوں نے اسلام آباد کا رخ کیا اور ریاستی تشدد کا بہادری سے سامنا کیا۔ شاید یہی لمحات تھے جب ان کے مخالفین پبلک کی نظروں میں ڈس کریڈٹ ہو گئے۔

ان کی اس تازہ مقبولیت کا امتحان سترہ جولائی کے ضمنی انتخابات تھے جس میں انھوں نے سیاسی مخالفین کے تمام تر حربوں کے باوجود فقیدالمثال کامیابی حاصل کر کے سیاسی منظر نامہ کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ مسلم لیگ کو ان کے گڑھ پنجاب میں جو ہزیمت اٹھانا پڑی وہ انیس سو اٹھارہ کے عام انتخابات سے بھی بڑھ کر تھی۔ ان انتخابات کے دوران عمران خان نے جہاں جہاں جلسے کیے مریم نواز ان کا اثر زائل کرنے کے لئے وہاں وہاں جلسے کرنے تشریف لے گئیں مگر نہ صرف وہ عمران خان کے مقابلے کے جلسے کرنے میں ناکام ہوئیں وہیں ان حلقوں میں آنے والے نتائج نے بھی ثابت کیا کہ عمران کا مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس لئے یہ بازگشت سنائی دی کہ اگر عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود نواز شریف کو وطن واپس لوٹنا پڑے گا۔

ضمنی الیکشن میں اس شاندار فتح کا پہلا شکار حمزہ شہباز بنے ہیں ان کی وزارت اعلی کی کرسی ان کے نیچے سے سرکتی نظر آئی۔ اگرچہ اب معاملہ کورٹ میں ہے اور زرداری نے ان کی کرسی برقرار رکھنے کے لئے ایک بھیانک چال چلی مگر اس کا بھی فائدہ عمران خان کو پہنچا۔ اداروں کا دم بھرنے والی پی ڈی ایم اس وقت سپریم کورٹ کو دھمکاتی نظر آتی ہے۔ اخلاقی طور پر پی ٹی آئی اتحاد کی فتح ہو چکی ہے اور عدالت بھی آئین کی پاسداری میں جو فیصلہ دینے والی ہے اس سے ان کو ہی فائدہ پہنچنے والا ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ بھی دفاعی پوزیشن میں جاتی نظر آتی ہے اور کپتان کے قبل از وقت الیکشن کے مطالبے کو اہم ترین حلقوں میں پذیرائی ملتی نظر آتی ہے۔

اب عمران خان کو پبلک نے جو بے مثال پذیرائی دی ہے اور ان پر ایک مرتبہ پھر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے ان کو بھی چاہیے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور پبلک میں آ کر اپنی سابقہ غلطیوں کا اعتراف کریں اور آئندہ اقتدار ملنے کی صورت میں کچھ اعلانات کریں۔ جیسے وہ اعلان کریں کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو اسلام آباد سے نہیں چلایا جائے گا اور عثمان بزدار کی بجائے کسی قابل رہنما کو وزیراعلی بنایا جائے گا۔ ان کی جماعت میں بہت سے قابل رہنما موجود ہیں جو پنجاب کے معاملات اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں۔

خاتون اول کو سیاسی و حکومتی معاملات سے الگ کریں، فرح گوگی جیسے کرداروں سے بے تعلقی کا اعلان کریں۔ بیوروکریسی میں میرٹ پر تعیناتیوں کو یقینی بنانے کا اعلان کریں۔ اور نیب اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کو بیوروکریسی کے اوپر مسلط نہ ہونے دیں۔ قومی معاملات میں اپوزیشن سے مل بیٹھنے کا اعلان کریں اور تمام معاملات میں اپنے اتحادیوں سے مشاورت سے چلنے کا اعلان کریں۔ حکومت کو غیر منتخب شدہ مشیروں کے ذریعے چلانے کی کوشش نہ کریں۔ کسانوں، اقلیتوں، مزدوروں اور دوسرے کمزور طبقات کے نمائندوں کو اپنی کچن کیبنٹ میں حصہ دیں۔ ان کی سابقہ کچن کیبنٹ میں یا تو کاروباری لابیوں کے بندے تھے یا باہر کے ٹھنڈے ملکوں سے آئے ارب پتی پاکستانی۔ ان کو اب احساس ہونا چاہیے کہ مشکل وقت میں کون ان کے ساتھ کھڑا ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments