ارتقا ناگزیر ہے


اکیسویں صدی کی طبقاتی کشمکش اور سرمایہ داری نے ہمارے اذہان میں مخصوص انداز میں کچھ لکیریں کھینچ دیں ہیں اور ہمارا لاشعور تک ان لکیروں پر خود کو منظم کرچکا ہے۔ سو اب ہماری انفرادی سوچ، مجموعی رویے، تخلیقات، نظریات اور سب سے بڑھ کر طرز زندگی انھی لکیروں پر استوار ہے۔ مادہ پرستی ان لکیروں کی وہ بنیاد ہے جس کے سبب ہمارے معاشرے اور تہذیبی خال و خد ہر گزرتے روز کے ساتھ تبدیلی کے دھارے سے گزر رہے۔ بنیاد پرستوں یا مذہبی نکتہ نظر کے حامل لوگوں کے لیے یہ تبدیلی تباہ کن، گمراہ کن اور تمام منفی ”کن“ کی علامت ہے۔

ان کا یہ ماننا ہے کہ یہ تبدیلی ”Man Exploit Man“ کا وہ خوفناک دیو ہے جو عنقریب مادیت کے حصول میں ہماری تہذیب کے گراں قدر جذبات، احساسات اور اقدار کے بخیے ادھیڑ دے گا اور نتیجتاً جس سماج کا قیام عمل میں آئے گا وہ مغرب ہی کا عکس آئینہ ہو گا اور یہ انتقال (transition ) ان کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں! یعنی کل مقدمہ یہ ٹھہرا کہ تجریدی تصورات کا خاتمہ قبول نہیں اور اگر ایسا ہوا تو ان کے سماج کا سب سے مضبوط ستون یعنی ”مذہب“ بھی ڈھے جائے گا اور شاید یہی واہمہ یا مفروضہ (postulate) سب سے اندوہ ناک تصور ہے۔

جبکہ دوسری سمت روشن خیال یا جدیدیت کا حامی ایک دوسرا گروہ موجود ہے جو سماج کی اس ٹرانسیشن کو ارتقائی عینک سے دیکھتا ہے اور تاریخی منظرنامے خصوصاً یورپی جغرافیے کے پس و پیش سے یہ استدلال کرتا ہے کہ تبدیلی کا دھارا عین بہبودی اور شعوری سمندروں کی جانب رواں ہے جہاں انسانیت کی معراج جدید ترین سائنسی اور صنعتی انقلاب کی صورت موجود ہے۔ اس طبقے کے نزدیک کبھی کوئی سماج یا تہذیب ایک ہی جگہ منجمد نہیں رہ سکی سو تبدیلی تو بہرکیف لازم ہے۔

مگر تاریخ میں دو اقسام کے سماج ملے، ایک وہ جنھوں نے اس تمام تر سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی، مذہبی غرض ہر جہت میں ترمیم سازی کو قبول کیا مثلاً برطانوی سیاسی نظام جو اپنی انفرادیت کی شال اوڑھے آج تک بہترین انداز میں رواں ہے اور دوسرا وہ طبقہ جس نے اس تبدیلی سے انکار کیا اور نتیجتاً وقت کے بہاؤ نے اس سماج کی بنیادیں اکھاڑ پھینکیں۔ شنید ہے کہ مشرقی بنیاد پرستوں کے اس انکار کی صورت بھی یہی نتائج برپا ہوں گے تبھی اقبال ”Reconstruction of Religious Thought“ لکھتا رہا اور برصغیر میں غامدی جیسی اکائیاں آج بھی اسی مشن پر کار بند ہیں!

سو فیصلہ اب آپ کا ہے کہ آپ کس طرف کھڑے ہیں، ہم بہت پہلے کہہ رہے کہ یہ نظریاتی تصادم اگر عنقریب کسی مصلحت کے ٹھکانے نہ لگا تو اس سماج کے حالات بہت دگرگوں ہوجائیں گے اور ”تب کا تب دیکھا جائے گا“ کہنے والوں سے جو ہو گا وہ کبھی نہ دیکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments