کیا پاکستان انڈوپیسیفک میں ایک سیکیورٹی رسک ہے؟


دو صدیوں سے مشرق وسطیٰ اور ایشیاء عالمی طاقتوں کے باہمی ٹکراؤ کا مرکز ہے، عالمی طاقتوں کے سیاسی رجحانات، درحقیقت اقتصادی و تزویراتی پہلوؤں کے تابع ہوتے ہیں۔ سات دہائیوں سے امریکا نے عالمی سیاسیات کو اپنے تزویراتی مقاصد کے تحت تشکیل کر رکھا ہے اور یہی تزویراتی مقاصد نئے عالمی اتحاد اور ممالک کے درمیان گروہ بندیوں کو تقویت دے رہے ہیں۔ برطانوی استعماریت اور نوآبادیاتی عہد میں روس ہدف رہا، عالمی سیاست پر امریکا کے تخت نشین ہونے کے بعد بھی روس ہی حریف رہا تاہم سرد جنگ کے خاتمہ پر، امریکا کو ایک نئے ابھرتے ہوئے حریف چین کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا کی 100 کھرب ڈالرز کی عالمی معیشت میں امریکا کا تناسب 25.3 کھرب ڈالرز جبکہ چین کا معاشی حجم 19.8 کھرب ڈالرز ہے۔ دنیا کا سیاسی توازن ان دو طاقتوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ آج گلوبل پالیٹکس میں نئے اتحاد کی سیاست انڈو پیسیفک کے تناظر میں ہی تبدیل ہو رہی ہے۔

امریکا کی جیو پولیٹیکل منصوبہ بندی میں تجارتی راستوں پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ فضائی اور زمینی تجارتی راستوں پر کنٹرول کے ساتھ بحری تجارتی راستوں کے ذریعے معاشی شہ رگ کو بھی امریکا اپنے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف جون کا مہینہ انڈو پیسیفک کی تزویراتی اہمیت کے باعث عالمی سطح پر سیاسی ہلچل کے لیے غیر معمولی رہا۔ افغانستان سے فوج کشی کے خاتمہ کے بعد ، امریکا اپنے مفادات کو کشش ثقل کی طرح انڈوپیسیفک اسٹرٹیجک مرکز کے طور پر دیکھتا ہے۔ انڈو پیسیفک سیاست کے باعث جون کے مہینے میں یکے بعد دیگرے چھ بڑے سیاسی اکٹھ ہوئے جس میں ایشیاء سیکیورٹی کانفرنس، گلوبل ڈائیلاگ آن ڈویلپمنٹ، جی سیون، برکس، نیٹو کانفرنس، کواڈ اور آکوس کے کثیر الجہتی اجلاس امریکا و چین کی بڑھتی ہوئی بے چینی کا اعادہ کرتے ہیں۔

ایشیاء سیکیورٹی کانفرنس (شنگری لا ڈائیلاگ) میں برطانیہ کے انسٹیٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز نے امریکا کو بھی مدعو کیا جس میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن شریک ہوئے یوں ایشیاء کی سیاست امریکی مداخلت کے بغیر ادھوری ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ ایشیاء کی سیکیورٹی پر تبادلہ کرنے کے لیے 59 ممالک کے 600 مندوبین مدعو تھے لیکن اس ڈائیلاگ میں امریکا و چین کے اسٹرٹیجک پارٹنر پاکستان کو شرکت کی دعوت تک نہیں دی گئی جو کہ دراصل غیر معمولی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر ریاست پاکستان کو ریجنل پالیٹکس میں پاریہ اسٹیٹ ڈیکلیئر کرنے کے مترادف ہے یعنی ریجنل اور گلوبل پالیٹکس میں پاکستان کو صرف اپنی سرحدوں تک ہی محدود کیا جا رہا ہے اور داخلی سیاسی و اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے مملکت کو خود ہی نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔

افغان جنگ سے نکلنے کی بنیادی وجہ ہی انڈوپیسیفک میں چین کے خلاف امریکا کا اپنے نئے عزائم پر فوکس کرنا تھا، شنگری لا ڈائیلاگ میں امریکی وزیر دفاع نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ امریکا، ایشیائی پارٹنر ممالک کے ساتھ مل کر دفاعی صنعتی اڈوں کو جوڑنے، سپلائی چین کو مضبوط کرنے اور نئی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو مشترکہ طور پر تیار کرے گا، امریکا اور پارٹنرز ممالک کے ساتھ مل کر ایشیاء کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے گا اس کے لئے وسطی ایشیائی ممالک کو ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ آسٹن نے اس تصور کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ چین مستقبل کا مالک ہو گا اور امریکا ایک معدوم ہوتی ہوئی طاقت ہے۔ سینئر امریکی حکام، صدر جو بائیڈن، نائب صدر کمالا ہیرس، سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن، لائیڈ آسٹن، کامرس سیکرٹری جینا ریمنڈو، امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی ایک مہینے سے ایشیائی ہم منصبوں کے ساتھ ڈائیلاگ میں مصروف ہیں۔

چین کے وزیر دفاع جنرل وی فینگے نے انڈو پیسیفک میں آکوس کے ذریعے مداخلت کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کانفرنس میں یہ سوال اٹھایا کہ امریکا نے پہلے مشرق وسطیٰ اور یورپ کو جنگی جارحیت میں تبدیل کیا اور اب کیا آئندہ امریکا انڈو پیسیفک کا امن تباہ کرنا چاہتا ہے؟ مسئلہ تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، شمالی کوریا کی نشاندہی کرتے ہوئے جنرل فینگے نے امریکا کو ان مسائل کے سائے میں کھڑا مہلک ہتھیار قرار دیا۔

چوں کہ شنگری لا ڈائیلاگ، برطانوی تھنک ٹینک ادارے کی چھتری تلے ہوا۔ لہذا، چین نے اس کے بعد ایشیاء کی سیکیورٹی صورتحال پر گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو ڈائیلاگ کا انعقاد کیا۔ اس ڈائیلاگ میں چینی صدی شی جن پنگ نے گلوبل ڈویلپمنٹ اینڈ ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن فنڈ قائم کر کے 42 ارب ڈالرز دینے کا اعلان کیا اور امریکی بالادستی کو توڑنے کا عزم کیا۔ جی ڈی آئی کا آغاز، چین نے ستمبر 2021 ء میں کیا جس کا مقصد عالمی سطح پر نیا سیاسی اتحاد مضبوط کرنا ہے۔ چین کے 2013 ء میں شروع کیے گئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی طرز پر جی ڈی آئی کی بنیاد رکھی گئی ہے جس میں ایشیائی و افریقی ممالک شامل ہیں۔

امریکا یہ تصور کرتا ہے کہ ایشیاء میں تزویراتی مداخلت کے لیے بھارت ایک اہم دروازہ ہے تاہم چین بھارت کے ساتھ اپنے روابط تیزی سے بڑھا رہا ہے اور اس کے لیے برکس کا فورم استعمال کیا جا رہا ہے۔ روس، بھارت اور برازیل کے ساتھ شراکت داری کو بڑھانے کے لیے چین نے جون کے مہینے میں ہی برکس اجلاس منعقد کیا اور تفصیلی اعلامیہ جاری کیا۔ برکس اعلامیہ میں امریکا کو بالکل واضح کر دیا گیا کہ عالمی حکمرانی کو از سر نو تشکیل دیا جائے گا اور عالمی فیصلہ سازی کے لیے ڈھانچہ کی تشکیل نو کو ناگزیر قرار دیا گیا۔ اعلامیہ میں اقوام متحدہ کے اہم اداروں بشمول سیکیورٹی کونسل میں جامع اصلاحات کی ضرورت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا۔ برکس ممالک نے اپنے اعلامیہ میں عالمی تجارتی قواعد میں تبدیلی اور عالمی معیشت کی تعمیر نو کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا ہے اور عالمی مالیاتی سیفٹی نیٹ کے تناظر میں آئی ایم ایف کے کردار کا جائزہ لینے کو ضروری قرار دیا ہے۔ برکس اعلامیہ میں کہا گیا کہ بین الاقوامی اقتصادی فیصلہ سازی میں ترقی پذیر ممالک پر مالی دباؤ کم کرنے کے لیے آزاد اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل کو ناگزیر قرار دیا گیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برکس اتحاد میں شامل تین بڑے ممالک، روس، چین اور بھارت سیکیورٹی کونسل کے ممبر ہیں جبکہ روس اور چین مستقل ممبر ہے۔ پچتھر نکات پر مشتمل اس دستاویز کو ایشیاء اور گلوبل ساؤتھ کے مستقبل کا بلیو پرنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکا نے اپنی عالمی حاکمیت کو قائم اور پائیدار رکھنے کے لیے جواب میں چار بڑے اتحاد کے اجلاس جون کے مہینے میں ہی منعقد کیے۔

اتحاد پر مبنی جوڑ توڑ کی سیاست میں، پچھتر نکات پر مشتمل اس دستاویز کے جواب میں نیٹو کانفرنس کا انعقاد ہوا، اس نیٹو کانفرنس کے بعد 49 نکات پر مشتمل نئی سیکیورٹی پالیسی جاری کی گئی ہے۔ امریکی کی سربراہی میں قائم نیٹو نے پہلی بار چین کو سیکیورٹی چیلنج قرار دیا ہے اور چین کو آئندہ دس سال کے لیے نیٹو کی اسٹرٹیجک ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے اور اعلامیہ میں بیجنگ کی پالیسیز کو نیٹو کے مفادات، سلامتی اور اقدار کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واضح کیا کہ چین عالمی نظام کو کمزور کر رہا ہے۔ درحقیقت، یہ وہ عالمی سیاسی و اقتصادی سسٹم ہے جس کی کمان گزشتہ سات دہائیوں سے نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے بعد امریکی کنٹرول میں ہے۔

اس کے بعد جون میں ہی، جی سیون ممالک کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے مقابلے پر 600 ارب ڈالرز کے منصوبوں کا اعلان کر دیا گیا۔ جی سیون کے تحت پانچ سالوں میں 600 ارب ڈالرز جمع کیے جائیں گے جس میں امریکا نے 200 ارب ڈالرز بہ طور گرانٹ مہیا کرنے کا وعدہ کیا اور یورپی یونین کی صدر نے 300 ارب یورو دینے کا اعلان کیا۔ اعلامیہ کے مطابق یہ فنڈز انفراسٹرکچرل ڈویلپمنٹ پر خرچ ہوں گے جس کے ذریعے سے چین کے اقتصادی پھیلاؤ کو روکا جائے گا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد ، امریکا کے ایشیائی سٹرٹیجک پارٹنر جاپان کو سیاسی اتحاد میں شامل کیا گیا جس کے لیے کواڈ اتحاد تشکیل دیا گیا۔ ٹوکیو میں کواڈ اجلاس منعقد ہوا، اگرچہ یہ اتحاد آسٹریلیا کی جانب سے تشکیل دیا گیا لیکن امریکا اس اتحاد کے ذریعے سے چین کی ریجنل طاقت کو توڑنا چاہتا ہے۔ چنانچہ کواڈ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کو برقرار رکھا جائے گا، سمندری حدود میں مشترکہ طور پر نیویگیشن سسٹم پر کنٹرول، اوور فلائٹ فری زون، میری ٹائم سیکیورٹی، سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن پر عمل درآمد اور مشترکہ سمندری ڈومین قائم کی جائیں گی۔ کواڈ اتحاد کے مذکورہ اجلاس میں اہم ترین فیصلہ یہ ہوا کہ اتحادی ممالک خلائی بنیاد پر زمین کے مشاہدے کے ڈیٹا کو شیئر کریں گے اور کواڈ سیٹلائٹ پورٹل قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا جس کا مقصد معلومات تک رسائی کو آسان بنانا ہے۔

امریکا نے آکوس کے ذریعے سے، آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں مہیا کرنے کا عزم کیا اور اس سیاسی اتحاد کے اجلاس میں برطانیہ بھی شریک ہوا اس کے اعلامیہ میں بتایا گیا کہ ہائپر سونکس، انسداد ہائپر سونکس، نیوی پروپلشن ٹیکنالوجی، سائبر ٹیکنالوجی، کوانٹم ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور زیر سمندر صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے تینوں ممالک تعاون کو بڑھائیں گے۔ یہ اتحاد انڈوپیسیفک میں جوہری ہتھیاروں کی نئی بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہوا ہے، جو مستقبل میں انڈو پیسیفک میں نئی جارحیت کا باعث بننے میں معاون ہو گا۔

انڈو پیسیفک کی مہم جوئی اختتام کو پہنچی تو امریکا کے صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کا رخ کر لیا۔ یہ دورہ دراصل کووڈ کے بعد نئے اقتصادی چیلنجز پیدا ہونے اور توانائی کے مسائل کے سدباب کے تناظر میں تھا اگرچہ اس دورے میں امریکا کی کم زور ہوتی عالمی بالا دستی کے اشاریے ملتے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے باعث توانائی بحران پیدا ہونے پر، امریکا نے سعودی عرب کو تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا تاہم سعودی عرب نے اس مطالبہ پر کوئی مثبت رد عمل نہیں دیا۔

یہ امر انتہائی غیر معمولی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اہم اسٹرٹیجک پارٹنر سعودی عرب اب برابری کی سطح پر مذاکرات کر رہا ہے۔ محمد بن سلمان کی امریکی صدر کے لیے سرد مہری، شاہی پروٹوکول کے برعکس ملاقاتیں یہ عیاں کر گئی ہیں کہ امریکا اپنی جغرافیائی پالیسیوں کے باعث سعودی عرب جیسے اہم پارٹنر کو کھو سکتا ہے۔ جو بائیڈن کا سعودی عرب کی جانب جھکنا، خارجہ پالیسی کا اب تک بڑا سیاسی یوٹرن گردانا جا رہا ہے۔

سعودی عرب وژن 2030 ء پر تیزی سے گامزن ہے اور ریاستی سیکیورٹی کے لیے روس کی جانب ہاتھ بڑھا چکا ہے جس کے لیے گزشتہ برس ایٹمی پاور پلانٹ لگانے کا معاہدہ ہوا جبکہ اس دورے میں ایران دشمنی کا عنصر بھی کچھ زیادہ غالب نہیں رہا بلکہ دورے کے دوران ہی یہ راز کھلا کہ سعودی عرب تیل پیداوار کے لیے روس کے وسائل بھی استعمال کر رہا ہے۔ اب روس اور ترکیہ کے صدر نے امریکی جارحیت کے خلاف تہران میں ڈیرہ ڈالا اور وہاں ایرانی ہم منصب اور سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنائی کے ساتھ مذاکر ات کیے جس کا بنیادی مقصد امریکی ڈالر کے مقابلے پر متبادل کرنسی میں تجارت کو فروغ دینا ہے۔

تیزی سے بدلتا عالمی منظر نامہ اور امریکی معیشت پر بڑھتے دباؤ سے یہ امکانات بڑھ رہے ہیں کہ مستقبل ایشیاء کا ہے اور یہ صدی ایشیاء کی صدی ہے۔ ایشیائی ممالک کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت سے ایشیاء نیا سیاسی مرکزہ بن رہا ہے۔ ایشیائی ممالک کے درمیان مضبوط اتحاد کو مولانا عبید اللہ سندھی نے 1920 ء کے عشرے میں ایشیاٹک فیڈریشن کے تناظر میں پیش کیا تھا اور اب ایشیائی ممالک کے درمیان ہی اتحاد اس خطے کی پسماندگی دور کرنے کی ضمانت بنیں گے اور عالمی بالا دستی کے یونی پولر تصور کے مقابلے پر ملٹی پولر ورلڈ تشکیل ہونے کا امکان ہے اور کووڈ کے بعد کے عالمی معاشی چیلنجز نے اس تصور کو رائج کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ لیکن ریاست پاکستان کا شہری ہونے کی بناء پر مجھے پاکستان کے تنہا ہونے پر تشویش کا اظہار ہے کہ ایشیائی سیکیورٹی کے لیے بننے والے نئے اتحادوں میں پاکستان کو سبز جھنڈی دکھانا کہیں پاکستان کا انڈو پیسیفک ریجن میں سیکیورٹی رسک بننے کا اشارہ تو نہیں؟ کیا پاکستان کے داخلی سیاسی تضادات اور مبہم خارجہ پالیسی ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments