کراچی کے کچرے پر فتح کا اعلان


سندھ حکومت نے اپنی کارکردگی کے اشتہار نشر کروانے شروع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک اشتہار شہروں کے کچرے کو اٹھانے کے بارے میں تھا۔ کہ ہم بہت جانفشانی سے کچرا اٹھا رہے ہیں اور اب ہمارے شہر صاف ستھرے نظر آ رہے ہیں۔ کاش یہ سب کچھ اتنا سادہ اور آسان ہوتا۔ کہ کچرا اٹھا لیا اور سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ کیا ہم نے سوچا کہ یہ کچرا کہاں جمع کیا گیا؟ کیا یہ طریق سائنسی طور پر محفوظ تھا؟ اس کچرے کے کتنے حصہ کو قابل استعمال بنا کر اس سے فائدہ اٹھایا گیا؟ ہم اس پر خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے گھروں کے سامنے سے کچرا اٹھا کر اس گند کو کہیں اور پھینک دیا۔

کچرے کا مسئلہ حل کرنا تو ایک طرف رہا، ہم نے ابھی پاکستان میں اس مسئلہ کو باقاعدہ ملک گیر تحقیق کر کے سمجھنے کی کوشش بھی شروع نہیں کی۔ یہ صرف اس عاجز کا خیال نہیں ہے بلکہ اس سال مارچ میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں کچرے کے مسئلہ پر ایک رپورٹ جاری کی۔ اس میں نہ صرف اس بات کا رونا رویا گیا ہے کہ پاکستان میں کچرے کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کوئی ایسا نظام موجود نہیں ہے جسے کسی طرح بھی تسلی بخش قرار دیا جا سکے، بلکہ اس المیے کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ ابھی تک پاکستان میں کوئی ملک گیر سائنسی تحقیق بھی نہیں کی گئی جس میں اس مسئلہ کا سائنسی تجزیہ کیا گیا ہو۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نہ تو کوئی ایسا مسئلہ ہے جو پاکستان تک محدود ہو اور نہ ایسا مسئلہ ہے جو اچانک سامنے آ گیا ہو۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور کئی دہائیوں سے دنیا میں اس کو حل کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے سائنسی اور منظم کوششیں کی جا رہی ہیں اور ہم صرف ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں، میڈیا اس پر سائنسی بحث کرنے کی بجائے صرف سنسنی خیز خبریں نشر کر رہا ہے اور حکومت گلیوں سے کچرا اٹھا کر کہیں اور پھینک دینے کو ہی اپنا ایک کارنامہ سمجھ رہی ہے۔ خواہ کچرے کے ان ڈھیروں سے کتنے ہی مسائل کیوں نہ جنم لیں۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں 2 ارب ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اور عالمی سطح پر اس میں سے ایک تہائی کچرا ایسے طریق پر جمع کیا جاتا ہے جو کہ ماحول کے لئے نقصان دہ ہے۔ اور کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک اندازے کے مطابق 2050 تک دنیا میں ساڑھے تین ارب ٹن کے قریب کچرا پیدا ہو رہا ہو گا۔ اور ظاہر ہے اسی حساب سے کچرے کے مسائل بھی بڑھ جائیں گے۔ دنیا کا ہر شخص کچرا پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

اگر اوسط نکالی جائے تو دنیا کا ہر شخص روزانہ پونا کلو گرام کچرا پیدا کر کے دنیا کے حوالے کرتا ہے۔ اور امیر ممالک میں یہ اوسط ساڑھے چار کلوگرام روزانہ اور غریب ترین ممالک میں ہر شخص ایک کلوگرام کا تقریباً دسواں حصہ کچرا پیدا کر رہا ہے۔

پاکستان تو ترقی یافتہ ملک نہیں ہے لیکن پاکستان میں زیادہ آبادی کی وجہ سے ہر سال تین کروڑ ٹن کچرا پیدا ہو رہا ہے۔ کچرے کے اس عظیم انبار میں سے صرف آدھا کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ باقی مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات میں زمین پر کھلا پڑا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے تعفن اور ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ مختلف بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ ہماری کارکردگی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک تو کچرے سے بجلی پیدا کر کے اسے کارآمد بنانے کے بڑے بڑے منصوبوں کو شروع کر کے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم اب تک اپنے گھروں کے سامنے پڑے ہوئے گند کو بھی نہیں اٹھا سکے۔

مجھے یہ علم نہیں کہ حکومت سندھ کس بنیاد پر کچرے پر اپنی فتح کا اعلان کر رہی ہے کیونکہ جو اب تک ریسرچ پیپر شائع ہوئے ہیں ان کے مطابق تو کراچی کے کچرے کا صرف پچاس فیصد اٹھا کر مخصوص جگہوں پر دفن کیا جا رہا ہے۔ اور یہ ملک کی اوسط کے برابر ہے۔ جبکہ پاکستان کے کئی شہروں میں ستر اسی فیصد کچرے کو اٹھا کر مخصوص جگہوں تک پہنچانے کا انتظام موجود ہے۔ کراچی میں روزانہ بیس ہزار ٹن کچرا پیدا ہو رہا ہے اور اندازہ ہے کہ 2030 تک اس شہر میں پچیس ہزار ٹن کچرا روزانہ پیدا ہو رہا ہو گا۔ اور اگر اوسط نکالی جائے تو کراچی کا ہر شخص 1.2 کلوگرام کچرا پیدا کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا معمولی نہیں کہ صرف چند اشتہاروں کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔

کچرے میں مختلف اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اور مختلف ممالک بلکہ مختلف شہروں میں ان اجزا کا تناسب مختلف ہوتا ہے۔ اگر کراچی کے کچرے کا جائزہ لیں تو مختلف مہینوں میں اس میں خوراک اور کچن کے کچرے کا تناسب ستر اور اسی فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ کاغذ کا تناسب 3.5 اور 7.5 فیصد کے درمیان اور کارڈ بورڈ کی بنی اشیاء کا تناسب 7.5 اور 9 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ اور خوراک اور کچن سے برآمد ہونے والا کچرا کھاد بنانے کے استعمال ہے۔ اس غرض کے لئے شروع سے ہی کچرے کے مختلف اجزا کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔

اب بہت سے ممالک کچرے سے بجلی بنا کر اسے مضر چیز کی بجائے فائدہ مند چیز بنا رہے ہیں۔ بجلی بنانے کے لئے کچرے کو ایک بڑے گڑھے میں جمع کیا جاتا ہے۔ اور وہاں سے کرین کچرے کو اٹھا کر ایک بھٹی میں منتقل کرتی ہے۔ اور اسے جلا کر حرارت پیدا کی جاتی ہے۔ اس حرارت سے پانی کو گرم کر کے بھاپ بنائی جاتی ہے اور اس بھاپ سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس عمل سے دو ہزار ٹن کچرا صرف تین سو ٹن راکھ میں بدل جاتا ہے۔ اور اس کم حجم کو ٹھکانے لگانا آسان ہوتا ہے۔ اور جو گیس پیدا ہوتی ہے اسے ماحول کے لئے غیر مضر حالت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ تاکہ ہوا میں آلودگی پیدا نہ ہو۔

سنگاپور جیسا چھوٹا مگر گنجان آباد ملک اس طریق سے کچرے کے مسئلہ سے نمٹ رہا ہے۔ مجموعی طور پر یورپی یونین کے ممالک میں پچیس فیصد کچرے کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور سویڈن، فن لینڈ اور ڈنمارک میں پچاس فیصد کچرے کو بجلی کی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یورپی یونین میں 48 فیصد کچرے کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے یا اس سے کھاد تیار کر کے اسے کارآمد بنایا جاتا ہے۔ جرمنی میں 60 فیصد کچرے کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے یا اس سے کھاد تیار کی جاتی ہے۔ یورپی ممالک میں ایسے ممالک بھی ہیں جو باقی ممالک کی نسبت کم ترقی یافتہ ہیں۔ یہ ممالک اپنے کچرے کے پچاس فیصد یا اس سے زائد کچرے کو زمین میں دفن کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں آئس لینڈ، یونان، مالٹا، ہنگری، رومانیہ سپین جیسے ممالک شامل ہیں۔

اگرچہ پاکستان ایک چھلانگ میں ان ترقی یافتہ ممالک کی طرح اس مسئلہ سے نہیں نمٹ سکتا جو کئی دہائیوں سے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے سائنسی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ہم کم از کم اس سمت میں منصوبہ بندی کر کے ابتدائی قدم تو اٹھا سکتے ہیں تاکہ آہستہ آہستہ یہ مسئلہ بڑھنے کی بجائے کم ہوتا جائے۔ اس کے لئے ہمیں اپنی توجہ اشتہاروں سے ہٹا کر ٹھوس پیش رفت پر مرکوز کرنی ہو گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments