مندر ، گوردوارہ اور میرے جوتے


مندر کے دونوں پٹ کھلے تھے۔ لوگ سوٹوں اور بوٹوں میں ملبوس بے دریغ اندر اور باہر آ جا رہے تھے۔ مندر کی بیرونی عمارت کا گنبد مرمت کر دیا گیا تھا۔ مرکزی کمرے میں خالی طاق بھائیں بھائیں کر رہے تھے۔ اس کے عین سامنے چند قدم کے فاصلے پر سکھوں کا گردوارہ تھا۔ یہ دونوں عمارتیں ایک ہی احاطے میں تھیں۔ گردوارہ بھی اندر سے ملکی خزانے کی طرح بالکل خالی تھا۔ صرف اس کی عمارت پر چند برس قبل رنگ و روغن پھیر کر راند سی کاٹ دی گئی تھی۔

یہ ذرا اونچائی پر تھا۔ اس عمارت کے نیچے سنگ مرمر کی سیڑھیاں تھیں جن پر معتبر سکھ اور ہندو اکابرین کے نام اردو میں نستعلیق رسم الخط میں کندہ تھے۔ ان چار پانچ سیڑھیوں کے آگے آہنی زنجیر لگائی تھی۔ ایک طرف کو مدہم سی تنبیہ لکھی ہوئی تھی ”براہ کرم سیڑھیوں پر پاؤں دھرنے سے اجتناب کریں۔“

گردوارے تک جانے کے لئے دو جگہ چار پانچ قدموں کی الگ سیڑھیاں بنائی گئیں تھیں۔ عمارت کو تعمیر نو کے دوران ہی ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس جگہ کے اردگرد گھنا جنگل تھا۔ مندر اور گردوارے کے دامن میں برگد کے بوڑھے درخت اپنی داڑھیاں لٹکائے سایہ فگن تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دوسرے درخت بھی تھے مگر ان کی وہ شان نہ تھی۔ دیواروں میں دیا جلانے کے واسطے بنائے گئے طاق اب بھی ویسے کے ویسے تھے۔ کھڑکیوں کے پٹ کھلے تھے۔ اور ان پر لوہے کی سلاخیں بالکل اسی طرح لگی تھیں جو برصغیر پاک و ہند کے قدیم طرز تعمیر کا خاصہ ہوا کرتی ہیں۔ لکڑی کے دروازے جو نقش و نگار سے مزین تھے اور جن پر بے حد محنت سے کام کیا گیا تھا اب دیمک کا لقمہ بن رہے تھے۔ ہر کمرے کے اوپر سنگ مرمر کی تختی میں گرومکھی، نستعلیق اور دیوناگری رسم الخط میں تختیاں نصب تھیں جن پر درج تھا کہ یہ دو کمرے لالہ فلاں نے بنوائے اور یہ حصہ شری فلاں نے وقف کیا۔

نئی نویلی دلہنیں لمبے چوڑے بھاری بھرکم گھاگروں اور چولیوں میں میک اپ تھاپے اور پروفیشنل کیمرہ مین لئے ان تاریخی عمارتوں کے سامنے فوٹو سیشن کرا رہی تھیں۔ کچھ ایسی ایلیٹ فیمیلیز بھی تھیں جو جوتوں سمیت ان تنبیہ والے زینوں پر ناموں کے اوپر بیٹھ بیٹھ کر فوٹو کھنچوا رہی تھیں۔

ساتھ ہی ایک کمرے میں ایک مدھم سا انرجی سیور روشن تھا اور ایک خستہ کرسی پر ایک شخص موبائل فون پر سکرولنگ کر رہا تھا۔ میں اندر گیا۔ اس سے صاحب سلامت کی۔ معلوم ہوا کہ یہاں کا انچارج ہے۔ کچھ تعارف اور تاریخ اس ورثے کی پوچھی۔

اس نے بتایا کہ یہ خاص علاقہ اور گاؤں شروع سے ہندوؤں اور سکھوں کی بڑی آبادی کا حامل تھا۔ یہ شہر بھی ایک ہندو راجپوت بادشاہ بپا راول نے آباد کیا تھا تبھی اس کا نام راول کے نام پر ہی راولپنڈی پڑا۔ یہ دونوں عمارتیں شہر کے مضافات میں اس گاؤں کی مرکزی عبادت گاہیں تھیں۔ اس شہر کو سب سے پہلے غزنی کے ڈاکو محمود نے تاراج کیا۔ جس کے بعد گکھڑوں نے 1493 میں شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ بعد ازاں لاہور کی سکھ ایمپائر قائم ہوئی تو 1765 میں سکھوں نے گکھڑوں کو شکست دے کر شہر کو سکھ ایمپائر کا حصہ بنا دیا اور یہ سکھوں کا اہم شہر ہو گیا۔

مگر تقسیم ہند 1947 کے وقت یہاں کی ہندو سکھ آبادی کو بعینہ یہ شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا جیسے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔ وہ لوگ جان بچا کر یہاں سے بھاگے۔ جو نہ جا سکے ان میں سے اکثر آج تک اپنی شناخت چھپائے پھرتے ہیں۔ میں یہاں کافی سالوں سے انچارج ہوں۔ جب کوئی مسلمانوں کے بھیس میں آتا ہے اور ہاتھ جوڑ کر پرارتھنا کر رہا ہوتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں۔ جہاں تک ممکن ہو اس کی مدد کی کوشش کرتا ہوں۔

کئی لوگ آبدیدہ ہو کر واپس جاتے ہیں۔ میرا بہت دل دکھتا ہے۔
یار ایک بات بتاؤ۔ یہ مندر اور گردوارہ خالی کیوں ہیں۔ مورتیاں اور بقیہ لوازمات کہاں ہیں۔ ؟
میں نے حیرت سے پوچھا۔

سر جی 2005 تک سب کچھ رکھا ہوا تھا۔ پھر پے درپے کچھ گھناؤنے واقعات ہوئے۔ لوگ بوتلوں میں پیشاب و پاخانہ بھر کر اندر مورتیوں پر اور عبادت والی جگہوں پر ڈال جاتے۔ ہم نے سب اٹھا لیا۔ ابھی بھی سارا دن لوگوں کو بتا بتا کر دماغ پھاوا ہوجاتا ہے کہ یہ مذہبی عبادت گاہیں ہیں۔ جوتوں سمیت نہ جاؤ۔ کوئی نہیں سنتا۔ مشرف دور میں اقلیتوں کے حقوق کا شوشہ اٹھا تو یہ تعمیر نو شروع ہوئی اور بس یہاں تک پہنچی۔ یہ دیکھیں اوپر چھت کا شہتیر آدھا گرا پڑا ہے۔ پرسوں ایک لڑکی ٹک ٹاک بنا رہی تھی کہ یہ دوسرا شہتیر دھڑام سے اس سے دو قدم کے فاصلے پر گرا۔ ہم نے فوراً یہ کمرہ لاک کر دیا۔ لوگ ضد کر کے کھلواتے ہیں۔ مگر تہذیب صرف بیکری کو سمجھتے ہیں۔

یار یہ تو تاریخی ورثہ ہے۔ یہ مرمت کب تک مکمل ہوگی؟
میں نے آخری سوال پوچھا۔

سر یہ کبھی نہیں ہو سکتی۔ گورنمنٹ فنڈ نہیں دیتی۔ کوئی باہر سے آتا ہے تو دو دن پہلے دس جمعدار، پانچ سات ڈیزائنر اور آٹھ دس مستری بھیج کر شیشہ باشہ بنا دیتے ہیں۔ دیواروں پر فوٹو چپکا دیتے ہیں۔ اور ان کے سامنے فوٹو سیشن کروا لیتے ہیں۔ اوپر جنگل میں ایک نیا کیفے کھلا ہے۔ لوگ دھڑا دھڑا صاحب لوگوں کو پیسہ دے کر اپنی چاندی کر رہے ہیں۔

میں جنگل میں بنے ہوئے ٹریک سے کافی اونچائی پر کیفے تک گیا۔ کافی شاندار تھا۔ کیفے سے بھی اوپر جنگل میں ایک قبر تھی۔ جس پر ڈھیر سارے چراغ جل رہے تھے۔ میں نے سوچا جاتے جاتے یہ دیکھ لوں۔ اندر گیا تو ایک احاطے میں قبر کا تعویز تھا۔ جس کے اوپر لال سرخ دلہنی رنگ دوپٹا اوڑھایا گیا تھا۔ اس کی منڈیر پر منتوں کے رنگ برنگے دھاگے بندھے تھے۔

میں ایک نگاہ مار کر واپس پلٹا تو نیچے دو نوجوان گریبان کھولے، پیروں میں سنہرے ٹرک ڈرائیور سینڈل پہنے نیم مدہوش بیٹھے تھے۔ ایک ہتھیلی پر چرس بنا رہا تھا اور دوسرا سوٹا لگانے کے بعد اگلے کش کے لئے پہلے کو دے رہا تھا۔

مجھے دیکھتے ہی انہوں نے مجھے ایسے روکا جیسے میری واپسی کا انتظار کر رہے ہوں۔ تیوری چڑھائی۔ اور غراتے ہوئے ایک نے پوچھا

” اوئے تم اوپر حضرت صاحب کی درگاہ میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments