سر راہ چلتے چلتے میں اور وہ


میں : ہیلو! کیا ہوا تم نے جواب نہیں دیا؟

خاموشی کے مختصر سے وقفے کے بعد ہمممم۔ کا جواب سے مجھے اندازہ ہوا کہ لگتا ہے ہمارے معاشرے کی ایک اور لڑکی اجازت کے تھکا دینے والے مرحلے سے گزر رہی ہے۔

رمیسا نے مجھے رازدار بنا کے اپنے دل کی بات آخر کہہ ہی ڈالی کہ اجازت نہیں مل رہی حالانکہ بہت دل تھا سیلف ڈیفینس ٹریننگ کا مگر میں کیا کروں اسی لیے جواب نہیں دے رہی تھی۔

میں : تم تو اپنی سہیلی کے ساتھ آ رہی تھیں؟
وہ: جی سوچا تھا دوست ساتھ ہوگی تو اجازت مل ہی جائے گی مگر ابو نہیں مان رہے۔
میں : یک دم کہا امی سے بات کرو۔

وہ: امی نہیں ہیں میری امی ابو کی علیحدگی اور اس کے بعد والدہ کی رحلت نے مجھے اکیلا کر دیا ہے۔ اس کے اس جواب نے مجھے اس کی پوزیشن کو سمجھنے میں مدد دی کہ جب والدین میں علیحدگی ہو جائے اور ماں دنیا سے چلی جائے اس کے بعد اگر بیٹی واپس باپ کے پاس آئے تو اسے یہ سمجھ کر ترک کر دیا جاتا کہ اپنی ماں جیسی ہوگی وہ بھی چلی گئی تھی۔ اگر مرد اور عورت باہمی رضا مندی سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں تو یہ ہی کیوں کہا جاتا ہے کہ اس کی امی چلی گئی تھیں یا وہ چھوڑ گئی۔

ظاہر سی بات ہے جب میاں بیوی علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں تو عورت ہی جاتی ہے اور بچے بھی اسی کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ کسی مرد میں اتنا دم کہاں کہ وہ عورت کو مقام دے کہ خود چلا جائے اور گھر بچوں اور بچوں کی ماں کے حوالے کر دے نہیں یہ ہمارے معاشرے کا رواج نہیں، عورت ہی جائے گی اس الزام کے ساتھ کہ چھوڑ گئی اور بچے بھی لے گئی۔

میں : مگر پھر بھی تم یہ سیلف ڈیفنس ٹریننگ لیتی ہو تو اس سے آسانی ہوگی ویسے بھی آج کل باہر نکلو تو خواتین کو ہراسانی کا سامنا تو رہتا ہے۔

وہ: ’یہ لوگ‘ نہیں سمجھ رہے کہ یہ کیا ہے۔

’یہ لوگ‘ نے ایک بات اور واضح کی کہ گھر میں باپ کے علاوہ وہ کردار بھی شامل ہیں جو شاہد خود بھی اجازت کے اس ہی پروسس سے بار بار گزری ہوں گی ۔ شاید نہ نہیں جیسے الفاظ سن سن کر یہ بھی یہ ہی کلمات دہرائی کی عادی ہو گئی ہیں۔

اف! یہ تو جرم ہی ہو گیا ایک تو کچھ کرنے کی اجازت اور وہ بھی سیلف ڈیفنس ٹریننگ یا خدا یہ کیا فرمائش کردی ایک لڑکی اور مار دھاڑ ایسا کیسے ہو سکتا ہے معلوم نہیں رمیسا اپنی بات صحیح سے بتانے میں ناکام رہی یا ہمیں بات سننے کی عادت ہی نہیں اور خصوصاً یہ آفر لڑکیوں کے لئے بالکل بھی نہیں ہے۔

اس وقت رمیسا تنہائی کے جس فیز سے گزر رہی تھی گھرانے کے اور لوگوں میں سے کوئی اسے سمجھے نہ سمجھے مگر اس کے والد محترم کو اسے ضرور سمجھنا چاہیے کہ وہ آخر کہہ کیا رہی ہے۔ ایک ایسی مشق کی اجازت طلب کر رہی ہے جس کو کر کے وہ معاشرے میں باہر نکل کر ایسے حالات سے اپنا بقاء کر سکتی ہے جس میں خواتین خوف و ہراس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بکھرے گھروندوں کے بچے عموماً عجلت، حوصلے کی کمی، صحیح سے بات سمجھانے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہی نہیں چونکہ ننہیال و ددیال کی جانب سے بچپن سے کانوں میں ایسی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں تمہاری ماں غلط تھی تو تمہارا باپ کا قصور تھا۔ اس صورت حال میں پلنے والے بچے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور اس وقت رمیسا کے والد کو مثل مادر ممتا پدر شفقت ہونا ہو گا۔

نا جانے ہمارا یہ بوسیدہ معاشرہ لڑکیوں کے لئے بنائے اصول کب بدلے گا۔

میں : ارے باتوں باتوں میں دور نکل آئی یاد آیا اسے فون یہ کہنے کے لیے کیا تھا کہ جلدی کرو ورنہ رجسٹریشن کی تاریخ نکل جائے گی مگر یہاں تو اجازت کی طلبی پہ ہاں تو دور کی بات گھورتی ہوئی نظروں کا سامنا کرنا پڑا اور نا جانے کتنے دن مزید کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments