ہماری عدلیہ اور چند سوالات


عدلیہ اس ملک کا وہ ادارہ ہے۔ جس کا وجود مقصد ارادے اور فیصلے بذات خود تشریح طلب ہیں۔ اب ان کی تشریح کے لیے کون سا فورم ہو۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

عدلیہ کی تاریخ شاہد ہے کہ ان کے فیصلے ملک کو بحران سے نکالنے کی بجائے مزید بحرانوں کا شکار کرتے آئے ہیں۔ آئین کی کسی بھی شق کی تشریح ایسے انداز میں کی جاتی ہے کہ اس تشریح کی بھی تشریح کرنی پڑ جاتی ہے۔ عدلیہ نئے اور ادھورے فیصلوں سے خود اپنے سابقہ فیصلوں کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلے قانون اور انصاف کی بجائے سیاسی ماحول مصلحت اور دباؤ کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر تشکیک کی ایک بڑی وجہ دوران سماعت یا کسی بھی فورم پر ان کی سیاسی گفتگو ریمارکس یا بیان بازی ہوتی ہے۔

اور دوسری بڑی اور اہم وجہ کیسز کو مدتوں لٹکائے رکھنا اور لمبی لمبی تاریخیں دیتے رہنا۔ کسی کیس میں سیاسی عسکری یا کسی بھی قسم کا دباؤ پڑنے پر اپنے منصب کی ذمہ داریوں سے کوتاہی کرتے ہوئے یا بینچ توڑ دینا یا کیس کی سماعت سے معذرت کر لینا۔ جبکہ ایک جج کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ معاشرتی سماجی سیاسی یا عسکری دباؤ کے آگے یوں ڈھیر ہو جائے۔ کیسز کو ان کے وقت مقام اور میرٹ پر سننا عدلیہ کا فرض ہے اور انصاف قائم کرنے کے لیے کم سے کم وقت میں فیصلہ دینا۔ کیونکہ تاخیر سے کیا گیا انصاف نا انصافی کے برابر ہوتا ہے۔

عدالتی نظام میں یہ جو ایک اور بڑی بدعت متعارف کروائی گئی ہے سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلینا۔ جب سے فیصلے محفوظ ہونا شروع ہوئے ہیں۔ انصاف غیر محفوظ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ جس سے عدل و انصاف کے نظام پر لوگوں کی بے اعتباری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ جس کا ثبوت معاشرے میں پھیلا ہیجان قانون و انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے لینا۔ تشدد قتل و غارت گری۔ مایوسی۔ قانون کی کمزور گرفت ڈاکا زنی اور لوٹ مار کی آزادی کی صورت میں نکلی ہے۔

ایک اور بڑی قباحت عدالتوں کا مہینوں چھٹیوں پر چلے جانا ہے۔ جس معاشرے میں عدل و انصاف مہینوں موسموں کی شدت سے گھبرا کر آرام کرنے چلا جائے۔ وہاں لاقانونیت عید منانے چلی آتی ہے۔ ججز کی تعلیم تربیت اور میرٹ بھی سوالیہ نشان ہیں۔ بینچ کی تشکیل میں بھی کسی میرٹ کو روا نہیں رکھا جاتا۔ چیف جسٹس کی بادشاہت ہے جیسا چاہے بینچ بنائے۔ اور مخصوص ججز کو ہی کیس سونپتا رہے۔ اور جس جج کو چاہے کھڈے لائن لگا دے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جیسا کہ سینئر ترین جج قاضی فائز کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک کہ وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں ہوتے۔ یہ عدالتی ایوان میں منصف کے ساتھ شدید نوعیت کی مسلسل نا انصافی ہے۔

عدالتوں کے پارلیمنٹ کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت۔ چیف ایگزیکٹو کو بار بار کام سے روکنا۔ سیاسی معاشی حتی کہ سماجی ابتری کا باعث بھی بنتا ہے۔

موجودہ دور میں دیکھ لیجیے پنجاب جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مستقل حکومت نہ ہونے کے باعث خود بھی مفلوج ہے اور وفاق بھی اسی مسئلہ کا شکار ہے۔ یہاں بھی سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سبوتاژ کر کے ایک ایسا ایڈوینچر کیا جو خود اس سے سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ اور عدالت آئین میں لگائی نقب کی تشریح میں خود پھنس گئی ہے۔

عدالت کتنے مہینوں سے مسلسل اس بات پر محنت کر رہی ہے کہ شہباز صوبے کے لیے کوئی کام نہ کر پائے۔ جب بھی وہ صوبے کے عوام مفاد کے لیے کچھ کرنے لگتا ہے اسے سیاسی فائدہ کہہ کر اس کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ ضمنی الیکشن سے پہلے ہاتھ باندھ دیے۔ دو دفعہ منتخب ہو کر حلف اٹھا چکا۔ مگر عدالت نے اسے مسلسل کام سے روکا ہوا ہے۔ اب ضمنی الیکشن ہو چکے ہیں اس لیے اب عوام سے کسی سیاسی فائدے کا کچھ مذکور نہیں۔ اب اس صوبے کے عوام پر رحم کھائیے اور وزیراعلی کو معمول کے کام اور عوامی مفاد کے کام کرنے دیجیے۔

آپ نے جو آئین میں نئی شق ڈال کر آئین کا نہ صرف حلیہ بگاڑا بلکہ اسے پیچیدہ بنا کر سیاستدانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ بتائیں ہم نے کیا فیصلہ کیا تھا۔ آپ کا جو فیصلہ خود آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا اس کی تشریح بہتر ہے باقی فالتو پڑے ججوں کو ملا کر فل بینچ بنا کر ایک بار کر دیجیے۔ اور یہ بھی واضح کر دیجیے کہ آپ کا حق آئین سازی نہیں آئین کی تشریح ہے۔ لہذا سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کی حدود میں کودنے سے پہلے اپنی حدود کا اندازہ بھی کر لیجیے۔

ہم جیسے عوام جو آپ کو لاکھوں روپے تنخواہیں۔ پینشنز اور پلاٹ اور یوٹیلٹی کے مفتے دیتے ہیں اور آپ کے سکیورٹیوں کے خرچے اٹھاتے ہیں۔ اس ملک پر ہمارا بھی کوئی حق ہے۔ آپ مہینوں حکومتوں کے پہیے جام کر دیں۔ کیونکہ آپ کے عیش و آرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ملک کا سیاسی اور انتظامی شعبہ ایک جگہ رکا رہنے کا مطلب شاید آپ جیسوں کو معلوم نہیں۔

یہ ٹرسٹی وزیراعلی کی اصطلاح بھی غالباً آپ کے زرخیز ذہن کی پیداوار ہے یا کسی بلیک ڈکشنری کا غیر واضح مفہوم۔ لوگ وزیراعلی پر تو پھر بھی ٹرسٹ کرتے ہیں مگر آپ عدل کے ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کے ٹرسٹ اعتماد سے مکمل محروم ہو چکے ہیں۔

آپ لوگ تو عالمی رینکنگ کی سب سے نچلی سطح پر ہونے کی وجہ سے خود قابل مواخذہ ہو اور پارلیمنٹ آپ کا مواخذہ کرنے کا پورا استحقاق رکھتی ہے۔ اس سے پہلے کہ عدل کے یہ ایوان ویران ہو جائیں۔ اپنی آستینوں میں چھپے بت باہر نکال دو۔ عدالتوں کو سیاست کا گڑھ نہ بناؤ۔ ورنہ عوام ویسے جرگہ اور پنچایت سسٹم کی طرف دیکھنے لگیں گے۔ اور عدل کے ایوان عجائب خانوں میں بدل جائیں گے۔ جہاں ان ایوانوں کو اس حال تک پہنچانے والوں کے مجسمے عبرت کے لیے رکھے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments