اجتماعیت، تنازعات اور غور و فکر کے چند نکات


انسان جتنا بھی بڑا ہے کمزور ہے اور کسی بھی وقت وہ پھسل سکتا ہے اس لئے۔
اسے خود مسلسل اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور اللہ تعالی کی فضل وکرم اور امان کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔

جو جتنا بڑا صاحب منصب اور ذمہ دار ہے اتنی ہی ان سے کارکنان کی محبت اور عقیدت ہوتی ہے اور کوئی لغزش انھیں مضطرب، مایوس اور مشتعل کر لیتی ہے اسی واسطے حد درجہ احتیاط، ضبط، صبر و برداشت، ایثار اور استغفار جیسی صفات اپنانے پر توجہ دینی چاہیے۔

”اگر میں گر گیا تو ایک بچہ ہی گرا مگر اپ کا گرنا امت کا گرنا شمار ہو گا۔ اس لئے زیادہ محتاط رہنا آپ ہی کے لئے ناگزیر ہے۔ امام وقت کو ایک بچے کی تنبیہ۔

لوگ بھی شخصیات پر ایمان لانے کی بجائے اپنی تحریک، نظریے اور نصب العین پر اپنا عقیدہ مضبوط تر رکھا کریں۔

انفرادی اور اجتماعی غلطی کا صدور عین ممکن ہے لیکن صاحب ایمان اور اہل دانش اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرتے ہیں، رجوع بھی کرلیتے ہیں اور اس سے سیکھ کر آئندہ نہ دہرانے کا عزم بھی کیا کرتے ہیں۔

تنازعات کا بروقت خاتمہ، کمزوریوں کی بروقت تصحیح اور تدارک، ارکان و کارکنان کی اخلاقی و روحانی معیار کی بلندی، محاسبے کی عمل کو زندہ رکھنا اور تادیب کرنے میں ہچکچاہٹ اور تساہل سے کام نہ لینا اجتماعیت کی بقا کے لازمی عناصر ہیں۔

تنقید، محاسبہ اور تادیب کرتے وقت مداہنت سے کام نہیں لینا چاہیے اور نہ عدل کے دامن کو چھوڑنا چاہیے۔

اصلاحات، اقدامات اور فیصلوں میں تاخیر بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے کہ بعد میں حالات کی جبر کی وجہ سے جلد بازی میں ”ٹھیک فیصلہ غلط وقت پر کرنا بھی غلطی ہے“ کے مصداق غیر معروف اقدامات اٹھانا مجبوری بن جائے۔

وسیع تر مشاورت، باہمی اعتماد، اتفاق اور اطمینان کے بغیر کوئی بھی فیصلہ قبولیت کے لئے ”آمریت“ کا محتاج ٹھہرتا ہے۔

دستور بلاشبہ اہم ترین دستاویز اور ایک ”معاہدہ عمرانی“ ہی ہے جو اجتماعیت کو چلانے کے لئے ضروری اور لازمی خطوط کار طے کرتا ہے اور اس کی پابندی بہرحال واجب ہے لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ رضا کار تنظیمات اور تحریکات دساتیر سے زیادہ اخلاقیات کی بنیاد پر قائم بھی ہوتی ہیں اور آگے بھی بڑھتی ہیں۔ قوانین اور نظم و ضبط کی کڑی قاعدوں کی بنیاد پر فوجیں اور دیگر سرکاری ادارے تو چلائے جا سکتے ہیں لیکن ایک حد سے زیادہ مذکورہ تنظیمات کو ہر گز بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ باہمی اعتماد، احسان، قربانی، ایثار، مشاورت، احساس شراکت، اپنائیت، محبت، خیر خواہی اور عدل جیسے جذبات اور صفات کو انگیخت کرنا اور اطاعت نظم کے احساس کو زندہ رکھ کر کے ہی یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ اجتماعیت میں نکھار لایا جاسکتا ہے۔

نظم کی فیصلوں پر اعتماد اور اطمینان رکھنا اجتماعی زندگی کا بنیادی وصف ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر اجتماعی فیصلہ ہر کارکن کی رائے اور سوچ کے مطابق ہو اور یہ بھی امکان رہا کرتا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ ہر لحاظ سے آئیڈیل بھی نہ ہو لیکن مجموعی طور پر اجتماعی فیصلے خیر کی بنیاد پر اور ”نفع زیادہ نقصان کم“ کی اصول پر کیے جاتے ہیں اس لئے مزاج اور رائے کے برخلاف بھی اسے تسلیم کرنا، اس پہ عمل کرنا اور دیگر لوگوں کو مطمئن کرانا قابل قدر اور قابل فخر کارکن کا نمایاں وصف ہے۔

کسی بھی فیصلے سے اختلاف رکھنا اور اس حوالے سے تحفظات اور خدشات کا ذہن میں پیدا ہونا کوئی بڑا گناہ نہیں ہے، اختلاف کرنا تو بنیادی حق ہے لیکن اختلاف کے باوجود باہم اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنا اور نظم کے آگے سر تسلیم خم کرنا اعلی ترین خوبی ہے۔

ہر فیصلے پر تنقید کرنا، اسے متنازعہ اور مشکوک ٹھہرانے کے لئے نجوی کرنا اور پبلک پلیٹ فارم کا استعمال کرنا سراسر منفی ذہنیت ہے۔ ایسا کوئی بھی فعل اجتماعیت کی خیر میں نہیں ہے بلکہ جماعتی امیج کی خرابی، باہمی یکسوئی کی خاتمے اور ذہنی خلفشار اور انتشار کا بڑا سبب ہے۔

کارکنان کو اپنی قیادت اور نظم پر اعتماد رکھنا چاہیے۔ اس تحریک کی مزاج اور روایات یہ ہے کہ جماعتی فورمز میں کھلے انداز میں بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور وہ بہت ساری باتیں جو کارکنان کی ذہنوں میں ہوتی ہیں وہ وہاں ڈسکس ہوتی ہیں لیکن کوئی فیصلہ کرتے، پالیسی بناتے اور حکمت عملی طے کرتے وقت بہت ساری پہلوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ بہت ساری چیزیں فورمز سے باہر کے لوگوں کی علم میں نہیں ہوتی اور نہ اسے عام کیا جاسکتا ہے۔ دستیاب معلومات، وسائل، ذرائع اور ممکنہ امکانات کو مدنظر رکھ کر کوئی بھی قدم اٹھا لیا جاتا ہے۔ اسی واسطے اجتماعی فیصلوں پر اعتماد، اطمینان اور عمل درآمد کرنا حسن ظن کا اعلی معیار اور اجتماعی حسن کا تقاضا ہے۔

تنقید بغرض اصلاح اور خیر خواہی کی بنیاد پر باہمی احتساب باعث خیر ہوتا ہے لیکن یہ حساس اور نازک کام بہرحال اپنے آداب کے ساتھ کرنا ہی باعث رحمت اور نفع بخش ہوتا ہے وگرنہ یہ باہمی رنجشوں، اختلافات اور تنازعات کو جلا بخشنے کا بڑا ذریعہ ٹھہرتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ غیبت، بہتان، بدگمانی، جھوٹ، نفرت، حقارت، تعصب، الزام، کردار کشی اور دل آزاری بہت بڑے گناہ کے کام ہیں۔

آخری بات۔

جب پانی ٹھہر جاتا ہے تو خراب ہو کر بدبو پھلاتا ہے اس لئے اسے رواں دواں رکھنا ہی دانشمندی ہوتی ہے۔ ایک دعوتی تحریک کا دعوت کے کام کو چھوڑنا ہی تنظیمی اور تحریکی جمود کا بنیادی سبب ہوتا ہے۔ مسلسل دعوت کے کام میں ہی اس تحریک کی زندگی ہے۔ دعوتی کلچر اور مزاج کو پروان چڑھانے کو ترجیح اول میں رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔

للہیت، تحریکیت اور علمیت کی اوصاف سے اجتماعی اور انفرادی زندگی کو مزین کرنے میں ہی نجات پنہاں ہے۔
دعوت، تربیت، محبت منصوبہ عمل میں ترجیح اول کے مقام پانے کی متقاضی ہے۔

جلد بازی کی نفسیات، احتجاجی مزاج اور فوری سیاسی فوائد پانے کی جستجو تحریک میں خلجان، مزاجوں کے بگاڑ، رویوں کی تغیر اور اجتماعی ترجیحاتی ڈائریکشن تبدیل کرانے کے بنیادی اسباب ہیں۔

دعوتی اور تربیتی دائروں کی وسعت اور پختگی کے بغیر محض کسی اٹھتے ہوئے سیاسی لہر سے فوری فائدہ اٹھانے اور سیاسی قوت پانے کی آرزو، خواہش اور خواب دیکھنا نادانی ہے۔ اول و آخر کام دعوت ہی کا کام ہو اور ہونا چاہیے کہ یہی بنیادی ذمہ داری ہے۔

تطہیر و تعمیر افکار، اصلاح معاشرہ، پاکیزہ و مستحکم تنظیم، اصلاح نظام و انقلاب امامت۔

یہ ایک جامع، ہمہ جہت اور موثر روڈ میپ ہے جس پر ترتیب، تدریج اور توازن کے ساتھ چل کر ہی مطلوبہ اہداف کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔

تنظیم کی پاکیزگی، تحریک کی بڑھوتری، قیادت کی اثر پذیری اور کارکنان کے اطمینان، یکسوئی اور عزم و ہمت کے لئے یہ چند نکات ہر سطح پر غور و فکر کے متقاضی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments