آخر پاکستان 50 سال پیچھے کیوں؟


میرا یہ عنوان خود اپنے اندر ایک بڑا سوال ہے جس کا جامع جواب شاید میرے پاس بھی موجود نہیں۔ مگر بمطابق عام فہم کچھ ایسے حقائق موجود ہیں جن پر روشنی ڈالنا مناسب رہے گا۔ 75 سال پہلے وجود میں آنے والی ایک ایسی ریاست جس کی خطے میں اسٹریٹجک پوزیشن اور اس کی اہمیت پر کوئی دو رائے موجود نہیں۔ جو نہ صرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ اس میں پہاڑ ہیں میدان ہیں دریا ہیں قدرتی چشمے ہیں صحرا ہیں سمندر ہیں حتٰی کہ رب کائنات کی عطا کردہ تمام نعمتیں اس میں موجود ہیں۔

اس کا سب سے بڑا اثاثہ اس کا نوجوان ہیں جو اس کی کل آبادی کا 63 فیصد حصہ پر مشتمل ہے۔ اس سب کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان آج کے جدید دور میں بھی ہر میدان میں ستر (70) کی دہائی کا منظر پیش کر رہا ہے ستر (70) کی دہائی میں پاکستان سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا سا ملک بنگلہ دیش بھی ترقی میں پاکستان سے آگے نکل چکا ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قیام پاکستان کے بعد ہمیشہ سے ہی پاکستان عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ اپنی منفرد حیثیت ہونے کی وجہ سے پاکستان عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہا ہے حتٰی کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے اثر رسوخ میں رہی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہمیشہ موجود رہا اور یہی عدم استحکام پاکستان کو کمزور کرتا چلا گیا۔

پاکستان میں مجموعی طور پر پچھتر (75) سال میں سات (7) سیاسی جماعتوں کے 22 وزیراعظم اور چار جرنیلوں نے مارشل لاء کی صورت میں حکومت کی۔ 11 ستمبر 2001 (9/11) کے واقعہ کے بعد پاکستان کو ایک فوجی جرنیل کی قیادت میں ایک کمزور ریاست ہونے کی وجہ سے ایک غیر ملکی جنگ میں کودنے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا 10نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی براؤن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 9/11 کے بعد امریکہ کی وار آن ٹیرر میں کودنے پر پینسٹھ (65) ہزار افراد کے جنازے دیکھنے پڑے جبکہ 12 ستمبر2021 کو عرب نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 20 ارب ڈالر کی امداد کے بدلے ایک سو پچاس (150) ارب ڈالر کی معیشت جبکہ ستر (70) ہزار افراد کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ وار آن ٹیرر کے نتیجے میں پاکستان دنیا کی نظر میں ایک غیر محفوظ ملک بن گیا۔ جس کے سبب پاکستان میں سیاحت کی انڈسٹری اور دیگر سرگرمیوں کو بری طرح نقصان پہنچا۔

اگر ایک نظر پاکستان کے سب سے بڑے اثاثے یعنی نوجوانوں پر ڈالی جائے تو وہ نوجوان جو اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ تھے بدقسمتی سے وہ دنیا کے باقی ترقی پذیر ممالک کے نوجوانوں سے اس لیے بھی پیچھے رہ گئے کہ پاکستان میں معیاری تعلیم اور موجودہ دور کے ہنر کے جدید تقاضوں کو پورا کرتی تعلیم فراہم نہیں کی گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سی پیک جیسا عالمی منصوبہ جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتا تھا اس میں جدید مشینری کے استعمال کے لیے لئے چائنہ کو سی پیک میں اپنے ہنر مند نوجوانوں کو استعمال کرنا پڑا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان ہی ملک کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔ اگر نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہنر مند اور با صلاحیت نہ ہو تو یہ ایک معاشی بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں۔ تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان ہی اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

اگر دنیا میں آخری پچاس سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جن ممالک نے تیزی سے ترقی کا دامن پکڑا ان میں سیاسی استحکام موجود تھا۔ اگر ترکی کو دیکھا جائے جو عالمی منظر نامے پر سیاسی و معاشی محاذ پر ابھر کر سامنے آیا۔ وہاں رجب طیب اردگان اور ان کی پارٹی مسلسل 19 سال سے برسر اقتدار ہے۔ روس کے صدر ولادمیر پیوٹن 18 سال جبکہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد مجموعی طور پر اٹھارہ (18) جب کے گزشتہ چودہ سال (14) سے تاحال برسر اقتدار ہیں۔

اسی طرح ملائشیا کی معیشت کو نئی بلندیوں تک لے جانے والے مہاتیر محمد مسلسل بائیس (22) سال ملائشیا کے وزیراعظم رہے۔ اور جدید سنگاپور کے بانی لی کو آن یو مسلسل 31سال سنگاپور کے وزیراعظم رہے۔ جنہوں نے سنگاپور کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک بنایا۔ جبکہ پاکستان کی پچھتر (75) سالہ تاریخ میں آج تک کوئی ایک بھی ایسا وزیراعظم نہیں جس نے اپنی پانچ 5 سالہ مدت پوری کی ہو۔ گزشتہ چار مہینوں میں جس طرح پاکستان میں سیاسی بحران نے جنم لیا ہوا ہے اور ہر طرف گہما گہمی کا منظر ہے اس میں ڈالر اوپر سٹاک مارکیٹ نیچے انارکی اور فساد پاکستان کے اندر اور سرمایہ دار پاکستان سے باہر جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پچھتر (75) سالوں سے یہ پارلیمانی نظام اس ملک میں کامیاب نہیں ہو سکا تو اس ملک کو مزید امتحان میں ڈالنے کے بجائے نظام کی تبدیلی کیوں نہیں کی جاتی۔ ایسا نظام جو چند ضمیر فروشوں کے بکنے سے ٹوٹ جائے۔ ایسا نظام جس میں فیصلے عوامی امنگوں کے بجائے بند کمروں میں کیے جائیں۔ ایسا نظام جہاں امیر کے لیے قانون اور جبکہ غریب کے لیے قانون اور ہو۔ ایسا نظام جس میں صحت، انصاف اور تعلیم کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہ ہوں۔

ایسا نظام جس میں ملک کا سربراہ مشکل فیصلے لینے کے بجائے چند ایم این ایز کے ہاتھوں بلیک میل ہو جائے۔ ایسا نظام جس میں غریب مسلسل غریب جبکہ حکمرانوں کے اثاثے ہزار گناہ بڑھ جاتے ہوں۔ ایسا نظام جس میں صرف سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کی اولادوں کو ہی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ہو۔ کب تک ایسے نظام کے سہارے ملک کو چلایا جائے گا۔ آخر کب تک معیشت کو ایسے بے کار نظام کے جھمیلوں میں سکڑنے کے لیے چھوڑا جائے گا۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ملکی اور عوامی مفاد میں فیصلے لینا ہوں گے۔ اور اس ملک کو استحکام کے لیے ایک ایسا نیا نظام دینا ہو گا جس میں مملکت کے سربراہ کا انتخاب براہ راست عوام خود کریں۔ ایک ایسا نظام جس میں مملکت کا سربراہ فیصلہ سازی میں آزاد ہو۔ ایک ایسا نظام جس میں تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ جہاں امیر اور غریب ایک ہی نصاب کی تعلیم حاصل کرتے ہوں۔ جہاں انصاف وقت پر میسر ہو۔ جہاں غریب کے بیٹے کو بھی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ہو۔ ایک ایسا مضبوط نظام ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments