سپریم کورٹ کا فیصلہ: کس سے منصفی چاہیں؟


نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے۔
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے۔
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد۔
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔
بنے ہیں اہل ہوس، مدعی بھی، منصف بھی۔
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔

فیض احمد فیض کے برسوں پہلے کہے ہوئے یہ اشعار موجودہ صورت حال میں حقیقت واقع بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ ہما را معاشرہ ان اشعار کے قالب میں مکمل طور پر ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔

جب مسیحا کہلانے والے ڈاکٹرز علاج کو فیس کے ترازو میں تولیں۔ زخموں پر پھاہا رکھنے والے انہیں ناسور بنانے کے درپے ہوں۔ جب اساتذہ تعلیم کو تجارت کا ذریعہ بنا لیں۔ جب سائلین قانونی مو شگافیوں کے باعث عدالتوں میں رلتے رہیں۔

جب قانون بنانے والے قانون شکنی کو اپنا حق جانیں۔ جب مجرم وکیل کے بجائے جج کرنا شروع کر دیں۔ جب جھوٹی گواہیوں پر بے گناہ پھانسی کے پھندوں پر جھول جائیں۔

جب انصاف کی منتظر مائیں عدالتوں سے مایوس ہو جائیں۔ جب حکمران عدالتوں کو اپنی لونڈیاں سمجھنے لگیں۔ جب انصاف نہ ملنے پر لوگ خود سوزیاں کرنے لگیں۔ جب بابا رحمتے جیسے جج آئین سے کھلواڑ کریں۔ جب عدالت عظمیٰ آئین کی اپنی تشریح پر دوہرا معیار اپنا لے۔ تو فیض کی زبان میں کہنا پڑتا ہے۔

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

سیاسی مقدمات کی سماعت کے لیے عدالت عظمی کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہیں مگر ناکردہ گناہ میں سزایافتہ قیدیوں کی اپیل کی سماعت کے لیے چھ سال لگ جائیں۔ جب عدالت انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے ملزم کی باعزت رہائی کا حکم اس وقت جاری کرے جب اس کی زنداں میں وفات کو دو سال بیت چکے ہوں۔

”یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد“

کسی بھی مہذب معاشرے اور ریاست میں عدالت کا کردار ہمیشہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسے تحریری دستور کا حامل ہے جس میں ہر ادارے کے فرائض اور ذمہ داریاں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں۔

حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے اور انہی کے ووٹوں سے ختم ہوتی ہے۔ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا بھی آئینی راستہ موجود ہے۔ وزیراعظم اکثریت کی حمایت پر اپنا عہدہ بر قرار رکھ سکتا ہے اور اکثریت کا اعتماد کھو دینے پر اقتدار سے رخصت ہو جاتا ہے۔

عدالتیں انتظامیہ کی نگران ہیں اور آئین کے خلاف قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔ یہ عدالتی طاقت اور اختیار آئین کی بنیاد پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے ماورائے آئین نہیں۔

ججز کا اپنا ضابطہ اخلاق الگ سے موجود ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو ججوں کی آزادی کا نام دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں خدائی اختیارات تفویض ہوسکتے ہیں۔ آئین کے مطابق مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک جسم کی مانند ہیں۔ ان کا باہمی ارتباط ہی ملکی معاملات کو درست سمت میں آگے بڑھا سکتا ہے۔

ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ جج اخبارات بھی نہیں پڑھتے تھے کہ کسی فیصلے میں ان کی آزادانہ رائے متاثر نہ ہو جائے۔ وہ اپنی سماجی سرگرمیاں محدود رکھتے، خوشی اور غمی کے مواقع پر منظر عام پر آنے سے گریزاں ہی رہتے تھے۔ ذاتی تعلقات کی نمائش کو وہ اپنی ذمہ داریوں کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ ادارتی اختیارات کو ذاتی سمجھنے کی غلطی کے مرتکب نہیں ہوتے تھے۔ جسٹس منیر نے ”نظریہ ضرورت“ ایجاد کر کے ہر آمر کا کام آسان کر دیا جنہوں نے اسے ”داشتہ بکار آید“ کے طور پر استعمال کیا۔

آئین شکنی کو حالات کی مجبوری قرار دے کر عدلیہ سے اس کی توثیق حاصل کرتے رہے۔ پاکستان پر عسکری طالع آزماؤں نے اسی بنیاد پر تین عشروں سے زائد وقت حکمرانی کی۔ پاکستان لگتا ہے اب جنگل بنتا جا رہا ہے جو زیادہ دھاڑتا ہے وہ اپنے آپ کو منوا لیتا ہے۔ عدالتیں نہ صرف اسے ریلیف دیتی ہیں بلکہ ماورائے آئین تشریح سے اس کے عیبوں کو ہنر سے تعبیر بھی کرتی ہیں۔ اسی تشریح سے دوسرے فریق کو فائدہ ملے جسے دیوار سے لگانے کے لیے قانون کی من مانی تشریح کی گئی تھی تو ججز اس پر سوال اٹھائے والے وکلا ء سے الجھنے میں دیر نہیں لگاتے۔

اب تک یہی سننے چلے آرہے تھے کہ جج غصے میں آتا ہے نہ مشتعل ہو تا ہے۔ تعصب اور عناد سے دور ہوتا ہے۔ کسی فریق کی توہین نہیں کرتا مگر اب کا منظر نامہ اس کے برعکس ہے۔ ماضی قریب میں وزیراعظم کو ایک فیصلے میں بلیک ڈکشنری کے سہارے سزا دی گئی۔ وزیراعظم اور ان کے رفقاء کو، سسلین مافیا ”قرار دیا گیا۔ یہ بدلا ہوا منظر نامہ خوش آئند نہیں۔

عدالت عظمٰی میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عطاء بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن 7، مئی 2022 کو اپنے فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ کو منحرفین کے خلاف دیے جانے والے اسی اختیار کو ماننے سے گریزاں ہیں جو انہوں نے دیا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کا ایک آٹھ رکنی بینچ بھی یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ اسمبلی کی کارروائی میں پارٹی سربراہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

عمران خان کی ہدایت کو سربراہ کی حیثیت سے درست قرار دے کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والوں عدالت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے گئے۔ اب عمران خان کی ہدایت کو دیا جانے والا احترام عدالت چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ فل کورٹ کی استدعا بھی رد کر دی گئی۔ ”ٹرسٹی وزیر اعلیٰ“ کی نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔ صدارتی ریفرنس کے پانچ رکنی بینچ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے موجودہ تین ججوں نے جو فیصلہ دیا اس کے دو ارکان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندو خیل نے صدارتی ریفرنس پر آرٹیکل 63 اے کے متعلق اپنے فیصلے میں واضح طور پر اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ آرٹیکل مکمل ہے اس کی تشریح آئین کو ازسرنو لکھنے کے مترادف ہوگی۔

تین ججز جو موجودہ مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اپنی تشریح میں پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے والوں کے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ دے کر اسی طرح کی صورتحال میں اپنا ہی فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر مسترد کر نے کا تاثر دے رہے ہیں۔ اور پارٹی سربراہ کی ہدایت کو نظر انداز کر کے وزیر اعلیٰ کے لئے ووٹنگ میں حصہ لینے والوں کے ووٹ شمار نہ کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس مقدمے میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا گیا مگر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے باوجود بھی طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس ریمارکس دیتے ہیں کہ ”179 ووٹ والا وزیر اعلیٰ ہے اور زیادہ ووٹ لینے والا باہر ہے۔ دو ماہ پہلے دیا جانے والا فیصلہ ہو سکتا ہے غلط ہو لیکن اس پر نظر ثانی نہیں ہوئی“ جب آپ اپنے فیصلے کی غلطی کا امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں تو پھر فل کورٹ بنانے میں حرج کیا ہے اور اپنے فیصلے کے برعکس فیصلہ کرنے پر کیوں مصر ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments