مٹی پاؤ جی!


ایک زمانے میں چوہدری شجاعت حسین صاحب کا ایک فقرہ بہت مقبول ہوا کرتا تھا۔ میں نے آج اپنے کالم کا عنوان اسی پر رکھا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے 22 جولائی کو ووٹ ڈالنے والوں کی پوری کارروائی مکمل ہونے کے بعد خط نکالا اور آناً فاناً اپنا فیصلہ سنایا کہ چوہدری شجاعت حسین کے مطابق ق لیگ کے دس ووٹ شمار نہیں کیے جا سکتے لہٰذا حمزہ شہباز ہی دوبارہ وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ اس پر بلاول زرداری جو اپنا تخلص بھٹو استعمال کرتے ہیں نے ٹویٹ کیا ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ ۔

کیسا تابعدار بیٹا ہے جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ جملہ طنزاً استعمال ہوتا ہے۔ زرداری بھکاری بن کر شجاعت حسین کے گوڈوں کو پانچ گھنٹوں تک ہاتھ لگاتا رہا۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ آصف زرداری نے کھلم کھلا یہ مثال قائم کی ہے کہ پارلیمنٹ میں ووٹنگ کی بجائے بندے خریدیں اور بلا مقابلہ جیت جائیں۔ ”پر چھڈو مٹی پاؤ جی!“ کئی دہائیوں سے ہم پہ حکمرانی کرنے والے سیاست باز جمہوریت کی بین بجا بجا کر ہمیں مست الست کرنے والوں کے اصل چہروں سے اب نقاب دھیرے دھیرے اتر رہے ہیں۔

یہ پچھلے ووٹوں کی اگلی قسط تھی جس میں پرویز الٰہی پہلے جیت چکے تھے۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو عوام کو ضمنی الیکشن کی تکلیف سے کیوں کر گزارا؟ چلو چھڈو ”مٹی پاؤ جی“ ۔ یوں لگتا ہے کہ قاسم سوری کی رولنگ کا بدلہ لیا گیا ہے۔ سیاست باز اب ذاتی بدلوں پر اتر آئے ہیں عوام جائے بھاڑ میں ”چھڈو مٹی پاؤ جی!“ ۔ حمزہ کو عبوری وزیر اعلیٰ بنانے کا مطلب ہے اس کو اڑا دیا جائے گا۔ بالآخر پرویز الٰہی ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔

لیکن کن شرائط پہ ”چھڈو مٹی پاؤ جی!“ ۔ حمزہ شہباز کے اندر عزت نفس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ دوسری دفعہ شیروانی پہنی۔ بہت سی رنگا رنگ واسکٹیں سلوائیں۔ حمزہ کو صدائیں آتی ہیں۔ حمزہ حاضر ہو۔ حمزہ معزول ہو۔ صبح آٹھ بجے بننے والا حمزہ شہباز شام 4 بجے عبوری وزیر اعلیٰ ہو گیا۔ ”مٹی پاؤ جی!“ ملک کی ریڑھ کی ہڈی تڑخ چکی ہے لیکن کسی سیاست باز کو احساس نہیں۔ یہ خود تو باہر ملکوں بھاگ جائیں گے۔ عوام کا کیا ہو گا؟

”مٹی پاؤ جی!“ عوام جان لے کہ حکمرانوں کے گلے شکوے کرنے میں صرف رسوائی ہی ان کا مقدر ہوگی۔ ان کو بدلنے کی تمنا ایک ایسا عمل ہے جس سے عوام بہر طور گزرتے ضرور ہیں۔ انصاف سے انتخاب کرنا ہماری ذمہ داری ہے جس کا جواب خدا کو بھی دینا ہو گا۔ جب ہم اپنے نمائندے چن لیتے ہیں تو پھر شکوے کرنا ہمارا حق نہیں بنتا۔ ملک میں جمہوریت کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ جمہوریت بنیادی طور پہ چند چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک تو سامراج سے آزادی۔

پاکستان کبھی بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ریاست کی حیثیت سے جمہوری بن ہی نہیں سکتا۔ جمہوریت کے لیے ایک اور بنیادی نکتہ ہے۔ فیوڈل ازم یعنی سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی حاصل کرنا۔ تیسرا نکتہ آئی ایم ایف ہم پہ ترس کھا کے اپنے دیے گئے قرضوں کی وصولی کے لیے پاکستان میں اپنے نائب مقرر کرتا ہے۔ کبھی ووٹ کا ڈرامہ رچا کر۔ کبھی رجیم چینج سے۔ لیکن ”مٹی پاؤ جی!“ جب سماج اتنا گیا گزرا ہو جائے، ملک میں انتشار پھیل چکا ہوتو پھر ادارے برباد ہو جاتے ہیں۔

چلو چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ فزکس کا اصول ہے جب آپ باٹم لائن کو ہٹ کر چکے ہوں تو پھر پانی آپ کو اوپر ہی کی طرف اچھا لگے گا۔ خواہ آپ غوطے کھا رہے ہوں یا مردہ حالت میں ہوں۔ کسی دانش ور نے کہا تھا ”تمھارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کیا ہے؟“ اب عوام اٹھ کھڑے ہوں۔ منظم ہوں اپنے حقوق اور ریاست کو بچانے کے اقدامات کرے۔ آئی ایم ایف کے قرضے چکانے کو عوام پہ حکومت جو ٹیکس لاگو کرتی ہے تو سوچنے کی بات ہے کیا اس وطن کے دیہاڑی دار ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔

مگر پھر بھی وہ صابن، گھی، آٹا، دال، چاول حتیٰ کہ ماچس کی ڈبیا تک پہ ٹیکس اداکرتے ہیں۔ پر چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ آنے والی ہر حکومت پچھلوں کا رونا روتی ہے۔ پی ٹی آئی اس غلط فہمی میں رہی کہ اب ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی۔ لیکن جب سندھ ہاؤس میں 20 منحرف اراکین کی موجودگی کا علم ہوا تو پی ٹی آئی کا گمان ٹوٹ گیا۔ ہارس ٹریڈنگ کی روایت پھر سے زندہ ہو گئی۔ پر چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ دروازے ہمیشہ اندر ہی سے کھلتے ہیں۔

اس وقت کی اپوزیشن نے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ڈی ایم بنائی اور رجیم چینج کے دروازے اندر سے کھولے اور اپنی حکومت بنا ڈالی۔ چلو چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ شجاعت حسین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت زیرک سیاست دان ہیں لیکن اس واقعے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وہ صرف بکنے بکانے کی سیاست اور کسی دباؤ کے تحت پیشن گوئی کیا کرتے تھے۔ پر چھڈو جی ”مٹی پاؤ جی!“ لاکھوں کروڑوں کسان اور مزدور طبقہ صرف معاشی دست نگری کا شکار ہی رہتا ہے۔

جمہوریت کو تو جاگیر داروں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ پر چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی معاشی اور سیاسی ناممکنات میں سے ایک ہے۔ پر چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ اب پی ڈی ایم نے رولا مچا رکھا ہے کہ ہم فل بینچ کورٹ کے فیصلے کو مانیں گے۔ فل بینچ تشکیل دینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔ وہی فیصلہ کریں گے کہ کس معاملے پر فل بینچ ہونا چاہیے۔ لیکن حکومتی اتحاد کہتا ہے ”مٹی پاؤ جی!“ ۔ کابینہ کے 41 ممبران نے سینہ تان کے حلف بھی اٹھالیا۔

سیدھا سیدھا سپریم کورٹ کے فیصلے کا تمسخر اڑایا گیا ہے۔ پر چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“ ۔ ہر تین میں سے ایک کو وزیر بنا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ملک کے اثاثوں کو بیچنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ”کوئی گل نہیں مٹی پاؤ جی!“ ۔ نامور ماہر قانون دان اعتزاز احسن صاحب نے بتایا کہ 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ ووٹ کس نے ڈالنا ہے پارٹی ہیڈ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔ چوہدری شجاعت صاحب نے کہا ہے کہ میں اداروں کے خلاف بولنے والے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر شجاعت حسین صاحب تک شاید مریم نواز کی عدلیہ پہ تازہ ترین باتیں نہیں پہنچیں۔ خیر چھڈو ”مٹی پاؤ جی!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments