دکن میں خودمختار مسلم ریاست کا قیام


 

اورنگ زیب عالمگیر کی بے مثال خوبیوں اور صلاحیتوں کی بدولت ایک وسیع و عریض مسلم سلطنت ہند کا عظیم الشان کارخانہ نصف صدی تک چلتا رہا، مگر اس کی آنکھ بند ہوتے ہی تیموری شہزادوں کے درمیان خانہ جنگیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو 1857 کی جنگ آزادی پر منتج ہوا۔ مؤرخین مغلیہ سلطنت کے ہولناک زوال کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عالمگیر نے جو مشین بنائی تھی اور جن کل پرزوں سے اسے ترتیب دیا تھا، اسے چلانے اور اس سے کام لینے کی ان کے جاں نشینوں میں مہارت اور قابلیت نہیں تھی، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے قابو میں رکھنے کے بجائے خود اپنے آپ کو اس کے قابو میں دے دیا۔ عالمگیر کے بیٹوں، پوتوں اور پڑپوتوں کی پوری فہرست پر نظر ڈالنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے دفعتہً نسل تیمور سے فرماں روائی کی قابلیت سلب کر لی تھی۔ نتیجے کے طور پر ملک میں سازشوں، خفیہ ریشہ دوانیوں، دو رخی چالوں اور دھڑے بندیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔

ان دم توڑتے حالات میں برصغیر کے قابل لوگوں نے کامل سنجیدگی سے محسوس کیا کہ خوشامدی مصاحبوں اور سازشی درباریوں کی موجودگی میں ملک اور سلطنت کی کوئی خدمت کرنا محال ہے۔ لامحالہ انہیں اپنی بھلائی اسی میں نظر آئی کہ مرکز سے الگ ہو کر جس علاقے پر قابو پایا جا سکے، اس میں اپنی جداگانہ ریاست قائم کر لی جائے۔ رعایا بھی آئے دن کی طوائف الملوکی سے بے زار تھی۔ مرکزی سلطنت کے ہر نئے انقلاب پر ایک نیا صوبے دار بھیج دیا جاتا تھا جو آئندہ کسی انقلاب یا بغاوت کے اندیشے سے رعایا کو لوٹ لوٹ کر جلدی سے جلدی اپنی جیبیں بھرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔

ان مشکلات سے عاجز آ کر صوبوں کے باشندے بھی اسے ترجیح دیتے تھے کہ کوئی طاقت ور شخص ان کے صوبے میں اپنی مستقل ریاست قائم کر لے۔ انہی اسباب سے بنگال، اوودھ، روہیل کھنڈ، مالوہ، گجرات، سندھ اور دوسرے صوبوں میں چھوٹی بڑی ریاستیں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ ان میں دکن اور جنوبی ہند میں میسور کی ریاستیں غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھیں۔

نظام الملک اور ان کے خاندان نے دکن میں ستر اسی سال تک مغلیہ سلطنت کی اعلیٰ خدمات انجام دی تھیں۔ ان کے دادا، ان کے والد، ان کے چچا، ان کے پھوپھا اور وہ خود اسی خطۂ ملک میں سپہ سالاری، صوبے داری اور فوج داری کی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ دکن کی رعایا، زمیندار، جاگیردار اور شاہی عمال سب پر ان کے گہرے ذاتی اور خاندانی اثرات تھے۔ اس وجہ سے کسی اور صوبے کی نسبت ان کے لیے دکن میں اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے زیادہ مواقع تھے۔ مغلیہ سلطنت جو سوا تین صدی کے لگ بھگ قائم رہی، اس نے انسانی تہذیب میں شاندار اضافے کیے تھے۔ وہ جب بکھرنے لگی، تو اس میں سے خیر کے پہلو بھی نکلتے گئے۔ زیادہ تر بالغ نظر طاقت ور شخصیتوں نے مسلم تہذیب و تمدن کے تحفظ اور فروغ کی خاطر دیسی ریاستیں قائم کر لی تھیں۔

خود اورنگ زیب عالمگیر نے دکن میں نظام کی ریاست کی تشکیل میں غیرمعمولی دلچسپی لی تھی۔ وہ تیس سال سے زائد دکن میں رہ کر مرہٹوں کی طاقت سے نبردآزما رہے اور اس دوران اورنگ آباد شہر آباد کیا۔ اس تاریخی شہر میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے تقریباً دو سو سال بعد پیدا ہوئے۔ یہاں بچپن ہی میں انہیں ایسی تربیت ملی کہ عمر بھر ان کا ہاتھ کسی زیر دست پر نہیں اٹھا اور وہ زبردستوں کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔

اس طرح برابری اور باہمی احترام کی شمع ان کی زندگی کے آخری لمحوں تک روشن رہی۔ حیدرآباد دکن میں بھی مولانا نے اپنی جوانی کا بڑا حصہ بسر کیا اور اپنے اسلاف اور اساتذہ سے علم و فضل کے ایسے خزانے حاصل کیے کہ پورے برصغیر میں ان جیسا قاطع برہان اور صبر و استقامت کا پیکر پیدا نہیں ہوا۔ انہوں نے ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے ذریعے بیسویں صدی کے پہلے ربع میں اسلام کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے پیش کیا اور ’تفہیم القرآن‘ کے عنوان سے ایک ایسا سلسلۂ مضامین شروع کیا جس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اسلام کی طرف لوٹنے اور اس کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کا زبردست داعی بیدار ہوتا گیا۔

ہم اپنے کالموں کا سلسلہ وقتی طور پر یہاں روک دینا مناسب خیال کرتے ہیں، کیونکہ ہمیں قیام پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کو شایان شان طریقے سے منانے کے لیے ایک قومی پروگرام ترتیب دینا ہے۔ پاکستان کے قیام کو بفضل خدا پچھتر سال ہو چکے ہیں جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے رب کریم کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے رہنا چاہیے۔ آزادی کی نعمت دنیا کی سب سے انمول دولت اور نعمت ہے۔ بلاشبہ ہم اس وقت زبردست آزمائش سے گزر رہے ہیں اور اندیشہ ہائے دور دراز نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، مگر ہمیں کامل امید ہے کہ ماضی کی طرح ہم اس بار بھی کربلا سے گزرنے کے بعد ایک نئی زندگی اور توانائی حاصل کریں گے۔

جس وقت پاکستان عالمی افق پر طلوع ہو رہا تھا، اس وقت بھی خون اور آگ کی آندھیاں چل رہی تھیں اور مسلمانوں کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کا خوف پیدا ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بقائے دوام عطا کیا اور انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے علی الرغم پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا گیا، مگر بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اعلان کر دیا تھا کہ مسلمان اپنا ملک چلانے میں ناکام ہونے کے بعد ہماری منتیں کریں گے کہ ہمیں اپنے ساتھ شامل کر لیجیے۔

پھر ایسا وقت بھی آیا کہ پاکستان کے روپے کی قدر بھارتی روپے کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی اور بھارت نے اپنی خفت مٹانے کے لیے پاکستان کو اپنے روپے کی قدر کم کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ آج ہم ایک بار پھر معاشی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 240 روپوں تک جا پہنچا ہے۔ ان شاء اللہ ہم اس پل کو بھی عبور کر جائیں گے کہ پاکستان میں پرامن انتقال اقتدار ہی بہت بڑی نعمت ہے جو ایک درخشندہ مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments