مسلم لیگ ن کا سیاسی زوال



پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نے جہاں سیاسی افق پر ہلچل مچا دی ہے۔ وہیں سٹاک مارکیٹ کے ساتھ ساتھ ڈالر کو بھی بے لگام کر دیا ہے۔ روپے کی گراوٹ کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عمران خان کی جا رہا نہ سیاست نے حکمران اتحاد کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ سر منڈواتے ہی اولے پڑنے والی کہاوت ان پر بڑی فٹ بیٹھتی ہے۔ کیوں کہ حیران کن طور پر عمران خان زیرو سے دوبارہ ہیرو بن چکے ہیں۔ جب کہ سرکار عوام کے غیض و غضب کا سامنے کرنے پر مجبور ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کو اس سارے قصے میں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ کل تک نواز لیگ پاکستان کی مقبول ترین جماعت کہلاتی تھی۔ بدقسمتی سے مگر آج ووٹر اس سے روٹھ چکا ہے۔

ماضی میں نواز شریف کے مشہور زمانہ بیانیے ”ووٹ کو عزت دو“ اور ان کے مخصوص انداز کی گھن گرج نے اس وقت کی وفاقی حکومت کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی بیک فٹ پر کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے مگر وہ اپنے چھوٹے بھائی کے سامنے بے بس ہو کر اپنے بیانیے سے دستبردار ہو گئے۔ اور تمام اختیارات کے ساتھ نون لیگ کی کمان انہیں سونپ دی۔ مگر وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے تجربہ کار جانشین حمزہ شہباز مطلوبہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ مفاہمت کا علم بلند رکھنے والے میاں شہباز شریف مقتدر حلقوں پر کچھ زیادہ ہی بھروسا کر بیٹھے۔ اگر وہ اپنی جماعت کے تین ادوار کے دوران مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو ذہن میں رکھ کر ہی کوئی قدم اٹھاتے تو اس وقت گہری کھائی ان کا مقدر نہ ہوتی۔

اب نون لیگ کے پاس عمران خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے مریم نواز کے علاوہ کوئی دوسرا راہنماء موجود نہیں ہے۔ لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ جماعت کی قیادت مریم نواز کے حوالے کردی جائے گی۔

سابق وزیراعظم عمران خان اپنے ہونے چار سال کی کمائی نون لیگ کی جھولی میں ڈال کر خود سیاسی شہید کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں۔ جب کہ میاں شہباز شریف نے عمران خان کے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہر القادری کے مشہور زمانہ نعرے ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ کو اپنا لیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا خیال ہے۔ سیاست تو چلتی ہی رہے گی۔ اس بحرانی دور میں ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ ریاست کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا جائے۔ لیکن عام آ دمی چوں کہ اپنے پیٹ سے سوچتا ہے۔
لہذا وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذمہ دار نواز لیگ کو ہی سمجھ رہا ہے۔ درحقیقت حکومت نے عمران خان دور کا تمام گند خود اٹھا لیا ہے۔ محض اسی وجہ سے نون لیگ کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ عام انتخابات جب بھی ہوں گے۔ یہ جماعت شاید پارلیمان میں خاطرخواہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس وقت نون لیگ کے قائدین کو کچھ بھی نہیں سجھائی دے رہا۔ مفاہمتی بیانیے کے علمبردار پارٹی راہنماء انتخابات اگلے سال کرانے پر بضد ہیں۔ جب کہ مریم نواز اور ان کا گروپ فوری طور پر اقتدار چھوڑنے کا حامی ہے۔

ملک کی تقریباً تمام صحافی برادری کی اب یہ رائے ہے کہ عمران خان کے سر پر وزارت عظمی ’کا تاج دوبارہ ضرور سجے گا۔ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ان کا گراف خطرناک حد تک گر چکا تھا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی کثیر تعداد خان صاحب کو داغ مفارقت دینے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ دوسری طرف نون لیگ کے ٹکٹ کی مانگ ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی تھی۔

مگر کپتان کی خطرناک باؤلنگ اور باؤنسرز نے نہ صرف مخالف ٹیم کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ بلکہ تحریک انصاف کے آشیانے سے اڑنے والے پرندوں کے قدموں میں زنجیریں بھی ڈال دیں ہیں۔ عمران خان کی جا رہا نہ اننگ نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن کی شاندار فتح نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔

بدقسمتی سے مگر پونے چار سال تک عوام کو سبز باغ دکھانے اور وعدے کر کے مکر جانے کے بعد عمران خان کی سمت آج بھی واضح نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کے پاس کوئی انقلابی پروگرام ہے۔ جس کو بروئے کار لاکر وہ ملک کی تقدیر بدل سکیں۔ تاکہ عام آدمی کے دکھوں کا کسی حد تک مداوا ہو سکے۔ وہ چندے، پناہ گاہوں اور لنگر خانوں سے آ گے دیکھنے کی شاید صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

بدقسمتی سے عمران خان جوان عمری سے صرف ایک ہی کام کر رہے ہیں۔ اور وہ ہے چندہ اکٹھا کرنا۔ انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے۔ کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پیسوں سے نہ صرف آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں گے۔ بلکہ معیشت کو بھی ٹریک پر لائیں گے۔

لہذا پاکستانیوں کو زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ عمران خان دوبارہ برسر اقتدار آ کر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ البتہ سعودی عرب سے فطرانہ عرب امارات سے نذرانہ اور اوورسیز پاکستانیوں سے چندہ وصول کرنے کا عمل جاری رہے گا۔

عمران خان اپنے پچھلے دور حکومت کی طرح لوگوں کو صرف سبز باغ ہی دکھا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).