اس لڑکی کا نام اللہ معافی کیوں رکھا گیا تھا؟


چند دہائیاں پہلے تک کمبائنڈ فیملی سسٹم پنجاب کے کلچر کا خاصہ تھا، اب بھی ہے لیکن آہستہ آہستہ پوری دنیا کے ساتھ کارپوریٹ کلچر پاکستان کی روایات پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، مادی اشیاء کے حصول کی دوڑ نے بہت سی خوبصورت چیزیں بھی ہمارے معاشرے سے چھین لیں۔

مشترکہ بڑے گھر میں ہماری دادی صحن میں لکڑی کے بنے ایک تخت نما پلنگ پر براجمان رہتیں، ارد گرد ہر وقت تین چار عورتیں جو دادی کی خدمت کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی مددگار ہوتی تھیں، ان میں سے ایک ادھیڑ عمر کی عورت ماسی ”معافی“ تھی، انتہائی کم گو، کام میں سگھڑ، میں نے شاید ہی اسے کبھی بولتے ہوئے دیکھا، اس کی جو بھی کمیونیکیشن تھی وہ صرف دادی کے ساتھ تھی، ہم بچے گھر میں بھاگتے دوڑتے شور مچاتے، کوئی نہ کوئی بڑا ہمیں نصیحتیں کر رہا ہوتا، کام کرنے والی عورتیں ہماری شکایتیں لگا رہی ہوتیں، لیکن معافی ان تمام باتوں سے لاپرواہ، چہرے پر کسی قسم کے تاثر کے بغیر نظریں جھکائے ہر وقت اپنے کام میں مصروف یعنی بلا کی انٹروورٹ پرسنیلٹی، پھر اس کا نام بھی بہت عجیب تھا۔

معافی آج تم دیر سے آئی ہو، معافی یہ چیز پکڑانا، معافی اب تم کھانا کھا لو، دادی کے یہ جملے اس وقت تو عجیب نہیں لگتے تھے لیکن یونیورسٹی کے زمانے میں جب معافی ماسی کے مرنے کی خبر ملی تو یہ جملے میرے کانوں میں گونجنے لگے، تب تک ہمارا مشترکہ گھر بھی تقریباً ختم ہو چکا تھا، دادا دادی کی وفات تک سب نے اپنے اپنے الگ گھر بنا لیے تھے۔

سب کچھ جیسے ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گھومنے لگا، خوشی اور غمی کے مشترکہ جذبات میں لپٹا ناسٹیلجیا۔

لیکن اس کا نام معافی کیوں تھا؟ کیا یہ اس کا ”نک نیم“ تھا؟ کیا یہ نام مذاق میں پڑ گیا؟ کئی سوال میرے دماغ میں گردش کرنے لگے، اس بار میرا گھر کا چکر لگا تو میں نے والدہ سے پوچھ ہی ڈالا کہ ماسی معافی کا نام معافی کیوں تھا؟

پتہ چلا کہ ماسی معافی اپنی تین بہنوں میں سے تیسرے نمبر پر تھی، اس کے باپ کو ایک عام روایتی باپ کی طرح بیٹے کی شدید خواہش تھی، لیکن ان کی پہلی اولاد ایک بیٹی تھی، چونکہ وہ پہلی اولاد تھی اس لیے کسی نے پرواہ نہ کی اور اسے خوش آمدید کہا گیا، کسی پیر فقیر کے کہنے پر اس کا نام ماشاءاللہ رکھ دیا گیا، اس امید کے ساتھ کہ اگلی اولاد بیٹا ہوگی۔

عین توقع کے مطابق اگلے ہی سال معافی کی ماں پھر حاملہ ہوئی، لیکن اس بار بھی معافی کے باپ کی قسمت میں اولاد نرینہ نہیں تھی، ماشا اللہ کے بعد ایک اور لڑکی پیدا ہوئی، سب کو پریشانی لاحق ہوئی اور پیر صاحب سے رابطہ کیا گیا، انہوں نے تسلی کے ساتھ دوسری لڑکی کا نام انشاءاللہ تجویز کیا، شاید یہ نام بھی اسی حکمت کے تحت تجویز کیا گیا کہ اگلا بچہ تو ضرور بیٹا ہی ہو گا ”اللہ نے چاہا تو“ ۔

لیکن اس بار تو بن بلائی مہمان ”معافی“ تھی یعنی کہ ایک اور بیٹی، اب تو گھر میں سوگ کا سماں تھا، ہر آنے والا مبارکباد کی بجائے افسوس کا اظہار کرتا رہا، بڑی بوڑھیاں اس ننھی سی جان کی آمد پر آنسو بہاتی رہیں اور معافی کی ماں بھی شاید اس کے پیدا ہونے پر روئی ہوگی۔

اب کیا کیا جائے؟ پھر پیر صاحب کے پاس حاضری دی گئی کیوں کہ پیر صاحب کا کیا قصور تھا؟ یہ تو معافی کی ماں کی ککھ ہی نامراد تھی جو لڑکیاں گھڑے جا رہی تھی، اب کی بار پیر صاحب نے کمال کا نام تجویز کیا، انہوں نے بولا اس کا نام ”اللہ معافی“ رکھا جائے، تاکہ اللہ کو خبر ہو کہ ہم تم سے پناہ مانگتے ہیں لڑکیوں کی پیدائش سے، اے اللہ تو خوب لڑکے پیدا کرنے والا ہے۔

معافی کے بعد ان کے گھر کوئی لڑکا پیدا ہوا یا نہیں؟ یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن بچاری معافی ہمیشہ کے لئے اللہ معافی بن گئی، شاید اس کی انتہا کی انٹروورٹ پرسنیلٹی اس کے نام کی بدولت تھی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments