حرا مانی کو دعا کے لئے دعا کرنا مہنگا پڑ گیا


کراچی سے بھاگ کر لاہور میں پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرا نے گزشتہ تین، چار ماہ سے پورے ملک میں ہنگامہ مچایا ہوا ہے۔ دعا نے ظہیر کے ساتھ بھاگ کر شادی کیا کی ملک کی با اثر شخصیات ہوں یا عام گھریلو لوگ ہر کوئی دعا زہرا کیس پر بات کرتا نظر آتا ہے۔

تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے دعا زہرا کیس سلجھنے کے بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے۔ اس کیس نے اب تک کئی موڑ لیے ہیں۔ 16 اپریل کو کراچی سے اچانک گھر سے غائب ہو جانے والی دعا زہرا کے والدین نے اس کے اغوا کی ایف آئی آر درج کروائی۔ تاہم معاملہ اس وقت میڈیا کی نظروں میں آیا جب اس کیس کو فرقہ واریت کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی۔

جب معاملے نے طول پکڑ لیا تو اچانک 26 اپریل کو دعا زہرا کی جاری ہونے والی ایک ویڈیو نے ملک بھر میں تہلکہ مچا دیا جس میں دعا زہرا پہلی بار اپنے شوہر ظہیر احمد کے ساتھ نظر آئی اور بیان دیا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا بلکہ اس نے اپنی مرضی سے لاہور آ کر ظہیر احمد سے نکاح کیا ہے اور اس کی عمر بقول اس کے والدین کے 14 سال نہیں بلکہ 18 سال ہے لہذا وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے اپنا گھر بسا سکتی ہے۔

دعا زہرا نے تو اپنا بیان دے دیا تھا لیکن دعا کے والدین اس بات پر بضد تھے کہ دعا کی عمر 18 سال نہیں بلکہ وہ 14 سال کی ہے۔ اور اس نے پسند کی شادی نہیں کی بلکہ اسے اغوا کیا گیا ہے اور زبردستی یہ بیان دلوایا گیا ہے۔

خیر دعا کی عمر کے درست تعین کے لیے دو بار اس کا میڈیکل ٹیسٹ بھی کیا گیا جس میں اس کی عمر 15 سال بتائی گئی۔

تاہم اس سارے معاملے میں دعا نے کبھی یہ باور نہیں ہونے دیا کہ اسے ظہیر نے اغوا کیا ہے بلکہ اس نے تو ظہیر کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں تک کھا لی تھیں اور صرف دعا نے نہیں بلکہ ظہیر بھی دعا سے الگ ہونے کے بجائے جان دینے کو تیار تھا لیکن پھر اچانک اس کہانی میں آیا ایک سنسنی خیز موڑ۔

چند روز قبل دعا زہرا نے اچانک بیان دیا کہ وہ ظہیر احمد کے ساتھ ناخوش ہے اور شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور اپنے والدین کے گھر بھی نہیں جانا چاہتی کیونکہ اس کے والدین کی جانب سے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لہذا عدالت نے اسے کراچی کے شیلٹر ہوم بھیج دیا جہاں دعا زہرا آج کل رہ رہی ہے۔

دعا زہرا کے ظہیر کے ساتھ عشق سے لے کر اس کی شادی اور پھر شوہر سے علیحدگی تک کی کہانی شاید پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہیں جانتی تو اداکارہ حرا مانی کیونکہ حرا مانی نے چند روز قبل دعا اور ظہیر سے متعلق ایسی پوسٹ کی جس سے پورے پاکستان میں ہنگامہ مچ گیا اور سب لوگ حرا مانی کو دعا سے متعلق ایسی پوسٹ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔

دراصل دعا زہرا اور ظہیر احمد کا کیس کوئی عام کیس نہیں بلکہ بہت ہی حساس معاملہ ہے کیونکہ یہ کوئی عام عشق معشوقی کا چکر نہیں ہے بلکہ اس میں چائلڈ میرج اور اغوا کی دفعات بھی شامل ہیں جو اس کیس کی نوعیت کو نہایت سنگین بناتی ہیں لہذا اتنے حساس معاملے پر ایک انتہائی غیر سنجیدہ تبصرہ کرنا بالکل بھی سمجھداری نہیں۔

اداکارہ حرا مانی نے دعا زہرا معاملے پر انتہائی غیر سنجیدہ پوسٹ کی۔ انہوں نے لکھا میری دعا ہے کہ دعا اور ظہیر کبھی الگ نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ میری یہ دعا ضرور سنیں گے۔

حرا مانی کو شاید یہ نہیں پتہ کہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ دعا زہرا نے واقعی پسند کی شادی کی تھی یا پھر اسے اغوا کر کے زبردستی اس کی شادی ظہیر احمد سے کروائی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اداکارہ حرا مانی کے اس بیان سے دعا کے والدین پر کیا گزری ہوگی جو اپنی بیٹی کو ہر قیمت پر اپنے گھر واپس لانا چاہتے ہیں۔

حرا مانی کے اس بیان نے ان تمام والدین کو ٹھیس پہنچائی ہے جو دعا زہرہ میں اپنی بیٹیاں دیکھتے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ دعا جلد از جلد صحیح سلامت اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔

اداکارہ حرا مانی کی اس پوسٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اداکارہ حرا مانی نے ہر چیز کو کھیل سمجھ لیا ہے اسے کسی کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں۔

لہذا جب لوگوں نے یہ غیر سنجیدہ پوسٹ کرنے پر حرا مانی کو کھری کھری سنائی تو اس نے سب کے سامنے اکر اپنی حرکت پر معافی مانگی۔ تاہم بعد میں پچھتانے اور معافی مانگنے کے بجائے انسان کو پہلے ہی سوچ سمجھ کر کسی بھی معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ بعد میں شرمندگی نہ ہو۔

یہاں میں کہنا چاہوں گی کہ اداکارہ حرا مانی نہیں بلکہ ہمارے بہت سے فنکاروں کا یہی حال ہے۔ انہیں حالات حاضرہ سے متعلق کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا اور اکثر سنجیدہ معاملوں پر غیر سنجیدہ تبصرے کر دیتے ہیں جس سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ کسی کی دل آزاری کرنے سے بہتر ہے کہ انسان سچ سمجھ کر اور پوری معلومات ہونے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments