اختر بلوچ: کراچی والے کا ’کرانچی والا‘ چلا گیا


کراچی میں گرو مندر کہاں ہے، یہ ہمیں اختر بلوچ نے بتایا، یہودیوں کا قبرستان، وہ بھی اختر بلوچ نے بتایا۔ شہر کی تاریخ اختر بلوچ کی انگلیوں پر تھی۔

کراچی پریس کلب میں اب سے کئی سال پہلے ایک پراسرار ملاقات ہوئی۔ کراچی کے آثار قدیمہ پر گفتگو شروع ہوئی تو قبل از تاریخ کے دور تک چلی گئی۔ وہ محکمہ آثار قدیمہ سے نالاں تھے، میں بھی ہوں۔ کراچی بہت زیادہ قدیم شہر نہیں ہے، لیکن کچھ آثار و مقامات بے حد قدیم ہیں، جیسے جوہر کی پہاڑیاں اور ان میں موجود پتھر کے دور کے آثار، رام مندر اور ملیر کی آبادیاں۔

اختر بلوچ صرف صحافی نہیں تھے، وہ مورخ بھی تھے، صرف مورخ نہیں تھے، مکمل سوشل سائنٹسٹ تھے۔ کراچی کے قدیمی باشندے تھے، کراچی کے عروج کے دنوں میں پلے بڑھے، کراچی کے زوال کے عینی شاہد تھے۔ کراچی کے مسائل کی اصل جڑ کو سمجھتے تھے۔ ان دنوں شہر میں ہر شام موت رقص کرتی تھی۔

بات شاعری کی جانب گئی تو میں نے انہیں اپنا ایک شعر سنایا۔
باشندگان شہر کے اندر بسا ہوا
مارا گیا ہوں شہر کی گلیوں میں جا بجا
بے تحاشا تڑپ اٹھے۔ کہنے لگے، ایسا شعر کوئی کرانچی والا ہی کہہ سکتا ہے۔

فضا میں عصر کی اذانیں گونجنے لگیں، وہ چاہتے تھے کہ میں کچھ دیر اور بیٹھوں، وہ تنہا تھے، لیکن وہ عید کا دن تھا، گھر کے کچھ تقاضے تھے۔ میں نے رخصت چاہی! اس کے بعد ملاقات نہیں ہو پائی، فیس بک اور واٹس ایپ پر رابطہ رہا، میرے لندن آنے کے بعد وہ بھی منقطع ہو گیا۔

ابھی ابھی! بس اسی لمحے اقبال خورشید کی پوسٹ دیکھی۔ اندر کچھ چھناکے سے ٹوٹ گیا، کتاب زندگی کا ایک اور باب تمام ہوا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے یہودیوں کے قبرستان لے کر جائیں گے۔ مصروفیات نے مہلت نہیں دی۔

پردیس میں معمولی بات بھی بہت بڑی لگتی ہے، اور کسی ہمدم دیرینہ کی رحلت کی خبر سننا۔ ہائے قیامت۔ کراچی والے کا ’کرانچی والا‘ چلا گیا، بس آثار رہ گئے۔
موت سے کس کی رفتگاری ہے
آج ان کی تو کل ہماری باری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).