ڈپریشن اور مذہب


ڈپریشن سے ناواقف لوگوں کو اگر ڈپریشن کے بارے بتانا ہو تو اسے آپ دیمک سے تشبیہ دے کر سمجھا سکتے ہیں۔ کیونکہ بالکل دیمک کی طرح یہ انسان کو اندر ہی اندر سے کھا جاتی ہے۔ اور اس کا ادراک عموماً بہت دیر بعد ہو پاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو چاہے کوئی ظاہری وجود نہیں رکھتی لیکن ایک تندرست و توانا انسان کو دنوں میں ڈھا دیتی ہے۔ ویسے تو اکثریت کو عمر کے کسی نا کسی حصے میں ڈپریشن کی کسی نا کسی شکل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لیکن لوگ تمام عمر اپنی اس کیفیت کو بیماری نہیں سمجھتے۔

بلکہ وقتی کوئی جذباتی کیفیت سمجھ کر ٹالتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں نا تو اس کی تشخیص سے متعلق آگاہی ہے اور نا ہی اس کے متعلق رہنمائی۔ اوپر سے ستم تو یہ ہے اگر کوئی شخص اپنی علامات جان جائے اور اپنی مدد کے لیے پکارے تو الٹا اس پر یقین نہیں کیا جاتا اور ساری کی ساری ذمہ داری مذہب سے دوری پر ڈال دی جاتی ہے۔ اسے بتا یا جاتا ہے کہ یہ سب تو دماغی خلل ہے۔ کوئی اسے بولے گا کہ یہ سب فراغت کی وجہ سے ہے کوئی کام دھندا شروع کرو۔

قرآن پڑھو نماز پڑھو دیکھنا یہ شیطان تم سے دور ہو جائے گا۔ لیکن کوئی بھی اس انسان اس سے ذرا لمحے بھر کی ہمدردی نہیں کرے گا ہمدردی تو دور بلکہ ایسے شخص کو کم ہمتی کے طعنے دیے جائیں کہ فلاں شخص تو اتنے سخت حالات سے گزر گیا تم میں تو کوئی زور بازو ہی نہیں۔ بیچارے ڈپریشن کے مارے کو مزید مار دی جائے گی اسے زندگی کی نعمتیں گنوائی جائیں گی اور اس کی ناشکری پر ملامت کی جائے گی۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے سے خاندان دوستی یا سوسائٹی کے نام پر بہت گہرائی تک جڑے ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن ہمارے ہاں اور شاید دنیا کے باقی حصوں میں بھی کمیونٹی کا یا کچھ گروہ کا مل جل کر رہنا اور اپنے بنائے اصولوں اور اخلاقیات کو انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی کر لینا ایک فرد کی انفرادیت کو نگل چکا ہے۔ اسی لئے لوگ ایک دوسرے کے لیے جذباتی اور ذہنی سہارا بننے کی بجائے ایک دوسرے کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔

کیا آپ نے کینسر کے مریض کو نماز سے اپنا علاج خود کرنے کا مشورہ دیا ہے؟ تو ڈپریشن کے معاملے میں ایسا کیوں۔ مذہب اور روحانیت پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرنے والی سوسائٹی اس قدر جسمانیت اور مادیت پر یقین رکھتی ہے کہ جب تک کسی حقیقت کو وجود کی

شکل میں دیکھ نا لے اسے ماننے سے انکاری رہتی ہے۔ بڑے بڑے علماء اس مرض سے ناواقف ہونے کے باوجود پورا پورا لیکچر دیں گئیں اور اس کو نا امیدی سے جوڑیں گئیں جو کہ ظاہر سی بات ہے ان کے نزدیک شرک ہے۔

لیکن وہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پہلی وحی کے بعد کی حالت کو بھول جاتے ہیں۔ کہ کس طرح وہ اضطراب اور خوف کا شکار رہے حتیٰ کہ اپنی جان لینے کے ارادے سے پہاڑوں کی اونچائی چڑھتے رہے۔ اللہ نے تو اپنے نبی کو سرزنش نہیں کی۔ کیونکہ خالق جانتا ہے انسانی جان کو سب سے بہترین۔ سورہ نشرح میں جہاں اللہ نے ہر آزمائش کے ساتھ آسائش کا وعدہ کیا وہی یہ بھی آ تا ہے کہ ”پس جب تو فارغ ہو جائے تو کمر ہمت کس لے اور اپنے رب کی طرف ہی رغبت کر“ انسانی جان کو سنبھلنے کے لیے یا ہیلینگ پیریڈ کے لیے درکار وقت کائنات کا خالق تو دے لیکن کوئی انسان نہیں۔ اب تو سائنسی نقط نظر سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانی جسم حادثات یا ارد گرد کی تکلیف کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ہم شاید تکالیف کو بھول جائیں لیکن ہمارا جسم یاد رکھتا ہے۔ اسی لئے کچھ لوگوں پر مسلسل ایک یاسیت و اداسی طاری رہے گا یا بار ہا کچھ وقفوں بعد بیمار ہوتے رہیں گے۔

ہمدردی، انڈرسٹینڈنگ اور مہربانی کی جتنی ضرورت ہے شاید ہی کسی اور جنریشن میں ہوتی ہو۔ لوگ آئے دن ایک ان دیکھے آسیب کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کا اندازہ نا تو وہ خود کر پاتے اور نا ہی ان کے اطراف میں کوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments