آفت زدہ بلوچستان اور سرائیکی وسیب


ہم بھی عجیب و غریب اور دلچسپ قوم ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نا ہو گا کہ ہم محمد شاہ رنگیلا کے وہ درباری ہیں جنہوں نے اپنے عہد کے ہر رنگیلے کو تعظیمی سجدہ کرتے ہوئے با آواز بلند یہی کہا ہے کہ حضور کا اقبال بلند ہو آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رہے اور ستم ظریفی یہ کہ ان کا سایہ اس وقت تک ہمارے سروں پر قائم رہا جب تک ہمارے سر ہمارے کندھوں پر سلامت رہے یا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے آ کر زیادہ ماہانہ تنخواہ پر ہمیں بھرتی نہیں کر لیا۔ تنخواہ کیا بڑھی ہم نے نا صرف دربار اور بادشاہ بدل لیے بلکہ اپنا طرز زندگی بھی بدل لیا۔ مگر ہماری قسمت نا بدل سکی اب بادشاہوں کے یا ان کے دربار بدلنے سے سوائے درباریوں کے باقی ماندہ جمہور کی قسمت کہاں بدلتی ہے۔ سو اپنی خواہشات کے تعاقب میں غلام کے غلام ہی رہے۔

مغل بادشاہت کی پسماندگی سے لے کر تاج برطانیہ کی دی ہوئی ترقی تک ہم نے سفر غلامی میں ہی کیا ہے۔ گورے انگریز گئے تو کالے انگریزوں کی جی حضوری میں لگ گئے اور نتیجہ یہ کہ آج تک اسی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں جیسی بادشاہت کے دنوں میں گزارتے تھے مطلب یہ کہ اس وقت بھی قدرتی آفات میں ہمارا کچھ نہیں بچتا تھا اور آج بھی اپنا سب کچھ ان قدرتی آفات میں کھو دیتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس پر صبر بھی کرلیتے ہیں۔ کبھی نہیں سوچا کہ قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے۔ حکومت وقت کو کیا اقدامات کرنے چاہیں۔ ہماری جغرافیائی صورتحال میں ہماری اور حکومت کی ترجیحات کیا ہونی چاہیں۔

ان دنوں ایک بار پھر سرائیکی وسیب سیلاب کی زد میں ہے۔ گزشتہ 75 سال میں ہم یہ تعین نہیں کرپائے کہ ہمیں سیلاب روکنے بھی ہیں یا نہیں روکنے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر سیلاب روکنے ہوتے تو ہم اس ضمن میں کچھ نا کچھ اقدامات کرتے اور ہم نے نہیں کیے تو سادہ سی بات ہے کہ سیلاب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ سیلاب اگر وسطی یا شمالی پنجاب میں آتے تو ان کا سدباب بھی ہو چکا ہوتا۔ چونکہ یہ جنوبی پنجاب میں ہی زیادہ تر آتے ہیں تو ان پر توجہ بھی کوئی خاص نہیں دی جاتی۔

جنوبی پنجاب میں سیلاب دو طرح سے آتے ہیں ایک تو دریائے چناب اور دریائے سندھ میں جب پانی زیادہ آ جاتا ہے اور دوسرا پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان پر بارشیں ہوتی ہیں۔ دریائے سندھ اور چناب میں زیادہ پانی کے آنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنی تباہی پہاڑوں پر ہونے والی بارشوں کے بعد بہنے والی پہاڑی ندیوں جن کو رودکوہی کہا جاتا ہے سے ہوتی ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے چناب کے اطراف میں فلڈ ایریا ہوتا ہے جب پانی زیادہ آتا ہے تو اس فلڈ ایریا میں پانی پھیل جاتا ہے جس سے نقصان ہوتا ضرور ہے مگر کم ہوتا ہے۔ اور اس پانی کی مقدار اور رفتار کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ نا کچھ بچت ہوجاتی ہے

کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع کے مغرب میں شمالا جنوبا پھیلا ہوا ہے۔ کم وہ بیش 200 کلومیٹر کے اس سلسلے کی مشرقی سمت دامان کا علاقہ ہے جس کو مقامی زبان میں پچادھ کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے یہ کم وبیش 30 کلومیٹر چوڑی پٹی ہے جو شمالا جنوبا پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ زیادہ تر ریتلا علاقہ ہے اور یہاں پر زیرزمین پانی بھی کافی نیچے ہے اس لیے یہ علاقہ زیادہ تر غیر آباد رہا ہے اور یہاں پر انسانی آبادیاں بھی نا ہونے کے برابر تھیں۔ مگر اب ٹربائن اور ٹیوب ویل لگا کر ناصرف پچادھ کے علاقہ میں کاشتکاری شروع کردی گئی ہے بلکہ انسانی آبادیاں بھی بننا شروع ہو گئی ہیں۔

جیسے جیسے پچادھ کا علاقہ آباد ہو رہا ہے رودکوہیوں کے قدرتی راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ پہاڑوں پر ہونے والی بارش کے بعد جب پانی چھ یا سات ہزار فٹ کی بلندی سے ڈھلوان کی طرف سفر کرتا ہے تو اس کی رفتار بہت زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اگر بارش زیادہ ہو جائے تو پھر پانی کا ایک بہت بڑا ریلا ایک طوفانی رفتار کے ساتھ میدان کا رخ کرتا ہے یہ اس قدر تیز ہوتا ہے کہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ ان رودکوہیوں میں سنگھڑ، سوری لنڈ، وڈور، مٹھاون، رونگھن، کا ہا کا شمار بڑی رودکوہیوں میں ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر نقصانات بھی ان رودکوہیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں

المیہ یہ ہے کہ انتظامی طور پر ان رودکوہیوں کو نا تو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے اور جو منصوبے شروع ہوئے وہ کرپشن کی نظر ہو گئے۔ ہر بار بارشیں ان منصوبوں پر خرچ ہوئے اربوں روپے میں ہونے والی کرپشن کے نشان بھی دھو دیتی ہیں۔ اور اس کرپشن کی گنگا میں محکمہ انہار کے افسران، سیاست دانوں سمیت ہر بندہ ہاتھ دھوتا رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ آج بھی رودکوہیوں کے منہ زور پانی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔

اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان رودکوہیوں کے پانی کو قابو کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرے۔ ان رودکوہیوں کے قدرتی راستوں کو کھلا چھوڑا جائے تاکہ پانی آسانی سے گزر سکے اور انتظامی طور پر پانی کے راستوں پر موجود انسانی آبادیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ اور اس وقت جو رودکوہیوں کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان، راجن پور میں تباہی ہوئی ہے اس پر امدادی سرگرمیاں تیز کرتے ہوئے تباہ حال لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے مدد کی جائے۔

حکومت جس قدر مالی امداد کر سکتی ہے فی الفور کرے اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے سرکاری واجبات معاف کرتے ہوئے ان کو گھروں کی تعمیر میں مدد دے۔ حالیہ تباہی اس قدر زیادہ ہے کہ حکومتی مدد کے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب اس وقت مکمل طور پر آفت زدہ ہے۔ یہی صورتحال بلوچستان کی بھی ہو چکی ہے کہ وہاں پر بھی ہونے والے نقصانات کا تخمینہ بہت زیادہ ہے۔ اس قدر نقصان سے کوئی انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے لہذا حکومت تمام تر وسائل کے ساتھ ان آفت زدہ علاقوں کے لوگوں کی ہر ممکن مدد کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments