سوشل میڈیا کی زبان


کرہ ارض کے ہر خطے اور علاقے کی طرح سوشل میڈیا کی بھی ایک مخصوص زبان ہے جس کے بنیادی فریم ورک کے تحت سوشل میڈیا ایپ کام کرتی ہیں۔ اس سے مراد وہ زبان نہیں جس سے ہم اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ وہ زبان ہے جس کے تحت سوشل میڈیا ایپ فنکشن کرتی ہے (لائک، کمنٹ، شیر) ۔ گزشتہ صدی کے بعد از جدیدیت کے عظیم فلسفی مائیکل فوکو نے خیال پیش کیا کہ ’زبان اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے جو اپنے علاوہ اور کوئی معنی بیان نہیں کرتی‘ جس میں طاقت اور اختیار کا اظہار بھی شامل ہے۔

مائیکل فوکو نے زبان کو بہت اہم مقام دیا اور اسے ہی حقیقت کو تخلیق کرنے کا آلہ کار کے طور پر پیش کیا۔ زبان محض خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ اس سے ہم اپنے اردگرد کی دنیا کا ادراک کرنے کے ساتھ حقیقت کو بھی تشکیل دیتے ہیں۔ کیونکہ زبان ہمارے خیال کو الفاظ کے ذخیرہ سے محدود کرتی ہے یعنی ہم اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں ہی کر سکتے ہیں جو ہماری زبان میں موجود ہیں۔ یہ بات سوشل میڈیا کی زبان کے استعمال کے حوالے سے درست ہے۔

ہر خطے کے مخصوص جغرافیائی اور معاشرتی حقائق زبان کی تشکیل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں یہی حال سوشل میڈیا کی زبان کا بھی ہے۔ فیس بک جیسے مقبول عام سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر 2004 ء میں جب فیس بک کا آغاز ہوا تو صرف انگریزی زبان کی سہولت میسر تھی اور اب ایک سو گیارہ زبانوں کو شامل کر کے اس کی رسائی بڑھا دی گئی ہے۔ تاہم اس کا بنیادی فریم ورک جدیدیت اور بعد از جدیدیت کی عکاسی کرتا ہے۔ فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اردو ترجمہ کے باوجود اس کے ادراکی فریم ورک کا سانچہ مغربی دنیا کی عکاسی کرتا ہے۔

اسے فیس بک کے ’لائک‘ فیچر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اردو میں ’لائک‘ کا ترجمہ پسند کرنا بنتا ہے جو کہ انگریزی زبان کے لفظ ’لائک‘ کے معاشرتی استعمال سے بالکل مختلف ہے۔ یوں تو اردو میں ’پسند‘ بھی کئی معاشرتی معنوں میں مستعمل ہے لیکن اس میں جنس مخالف کی مناسبت سے رومانوی تعلق غالب نہیں جیسا اردو میں ہے۔ چنانچہ مغرب میں ’لائک‘ کو جنس مخالف سے گفتگو میں غیر رومانوی معنوں میں بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف سوشل میڈیا ایپ کے دیگر فیچر بھی ہمارے مقامی ماحول میں مختلف معنی رکھتے ہیں۔ نیٹ فلیکس پر سوشل میڈیا کے متعلق ایک ڈاکومنٹری میں فیس بک پر ’لائک‘ کے بٹن کے موجد سمیت کئی اور اہم فیچرز کو متعارف کروانے والے لوگوں نے حیران کن انکشافات کیے ہیں اور وہ بھی اس سے جدیدیت اور بعد از جدیدیت کے صارفیت کے نظریے اور انفرادیت پسندی کو تقویت دینے کے رجحان کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتے جدیدیت اور بعد از جدیدیت کے انفرادیت پسندیدیت کے رجحان کی مقبولیت کو ہم اداکارہ حرا مانی کے دعا زہرہ کے معاملہ میں بیان کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ حرا مانی سوشل میڈیا پر ایک صاحب اثر کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اسی نقطہ نظر کے تحت انہوں نے اس واقعے کے بارے میں کوئی مستند تحقیق کے بغیر ایسا بیان دیا جس کا سوشل میڈیا پر منفی ردعمل سامنے آیا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک اور ویڈیو کے ذریعے معافی مانگ لی۔ یہ انفرادیت پسندی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ایک دن حرا مانی نے سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ دیکھا اور کسی بھی تحقیق کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔ مذکورہ واقعے میں منفی ردعمل کے بعد پہلے بیان کی تردید کر دی گئی لیکن اگر ان کا بیان ایک سوشل ٹرینڈ بن جاتا تو اس کے نقصان کا ازالہ کون کرتا؟

سوشل میڈیا کی زبان کے ادراک کی کمی دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنتی ہے۔ ہمارے جیسے گروہی معاشرے (انفرادی کے برعکس) میں یہ بہت سی پیچیدگیوں اور رنجش کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایک غلط تاثر پاکستان میں ’فرینڈ ریکویسٹ‘ کا ہے، لوگ ڈاکٹر کے پاس معائنہ کروانے جاتے ہیں اور اسے فرینڈ ریکویسٹ بھیج دیتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر سیاسی بحث ہے جو چائے خانوں، حمام، نائی کی دکان سے فیس بک پر منتقل ہو گئی ہے اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ فیس بک پر بھی یہ لکھنے کی ضرورت آن پڑی ہے ’سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں‘ ۔

اس کی تہہ میں مسئلہ انفرادی اور گروہی معاشرے کے تناظر میں سوشل میڈیا کی زبان کا معاشرتی ادراک ہے۔ سوشل میڈیا کی کسی بھی پوسٹ کی زبان میں انداز بھی شامل ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایموجی کے ساتھ اور بغیر لکھے الفاظ مختلف طرح سے سمجھے جائیں گے۔ جس کا مقصد پوسٹ کو حتی الوسع انفرادی شکل دینا ہے۔ سوشل میڈیا الفاظ کی دنیا ہے منہ میں جو لفظ آیا دوسرے شخص کے جذبات اور خیالات کو بغیر احاطہ کیے لکھ دیا۔ ہمیں اس دوائیت سے باہر آنا ہو گا۔

جو کچھ ہم سوشل میڈیا کی دنیا میں کہتے اور کرتے ہیں اس کا اثر کمپیوٹر سے باہر ہماری اور دوسروں کی زندگی میں پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا کی تاثراتی زبان بھی اتنی ہی معنی خیز ہے جتنا کہ اس کے کمنٹ سیکشن میں لکھا جملہ۔ ہمیں اس پلیٹ فارم کے موثر استعمال کے لئے اس کی زبان کے درست ادراک کو اپنے معاشرتی تناظر میں سمجھنا ہو گا اور ان تحت لفظ اشاروں کو اس ماحول کے مطابق دیکھنا ہو گا جس معاشرے کے عکاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں۔ انفرادیت پسندی کا یہ تصور ہمارے جیسے اجتماعیت پسند معاشرے میں مثبت کی جگہ منفی ثابت ہوتا ہے کیونکہ بیانیے پر معاشرے کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ ٹرینڈ بالمقابل ٹرینڈ سے اکثر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

زبان کا یہ طاقت ور استعمال ہماری وولڈ ویو کو کنٹرول کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کی زبان (لائک، کمنٹ اور شیئر) ہماری آن لائن زندگی کو ایک مخصوص انفرادیت کے سانچے میں ڈھال دیتی ہے جس کے مطابق ہم اپنی خوشی، غم، مایوسی اور غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا کی زبان ہماری زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کی یہ دنیا فلسفی ژاں بوڈرے کے فلسفہ ’حقیقت ایک تصویر ہے‘ کی عکاسی کرتی ہے جسے کی تشریح کرنے کے لئے ہر فرد آزاد ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے مسائل میں اولین ترین ہے کیونکہ یہ طرزعمل کسی بھی واقعے کو مخصوص سیاق و سباق سے نکال کر ذاتی خیال کی روشنی میں پیش کرتا ہے جو حقیقت کے متضاد بھی ہو سکتا ہے اس لئے سوشل میڈیا کی جدیدیت اور بعد از جدیدیت کی زبان کے ان پہلوؤں کا ادراک اس کے درست استعمال کے لئے بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments