انتظامی مسائل کے خاتمہ میں حائل آئینی رکاوٹیں


پاکستان میں اکثر انتظامی مسائل کی راہ میں آئینی رکاوٹیں حائل ہیں، آئین اپنی ذات میں قوم کا محافظ ہوتا ہے مگر جب ملک میں مختلف عصبیتیں موجود ہوں تو آئین ان کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے، پاکستان کو صوبائی عصبیت نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ سیاسی و انتظامی حالات میں اس مقدمہ کو سمجھنا آسان ہے۔

پانی کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں، پاکستان میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے، گلیشیئرز پگھلتے ہیں، بارشوں سے پانی مہیا ہوتا ہے مگر ہنوز پانی کو محفوظ کرنے اور ملک کے خشک علاقوں تک پہنچانے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے، پانی کا اکثر حصہ ملک میں تباہی مچا کر سمندر میں جا گرتا ہے۔ نتیجۃً کہیں خشک سالی کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں اور کہیں پانی کے وافر ہونے کی وجہ سے تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔ وجہ سادہ ہے کہ صوبائی عصبیتوں کی وجہ سے مزید ڈیم نہیں بن رہے، علاوہ ازیں فنڈز کی فراہمی، صوبوں کی آمدنی اور طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے بھی خشک علاقوں تک پانی پہنچانے میں مسائل ہیں۔

کراچی کی صفائی اور سیوریج ایک بڑا مسئلہ ہے مگر وفاق، صوبے اور مقامی حکومتوں کے آئینی و انتظامی اختیارات میں ٹکراؤ کی وجہ سے فنڈز کے اجرا اور انتطام میں مشکلات رہی، کام وہیں رکا ہوا ہے۔ دیگر مسائل بھی اسی طرح کے آئینی و انتظامی تعصبات کا شکار ہیں، موجودہ سیاسی بحران میں صوبوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

ان تمام مسائل کا حل آئینی اصلاحات ہیں، مسائل کے خاتمہ کے لیے صوبوں کو ختم کر کے سنگل یونٹ مرکزی حکومت قائم کی جائے، انتظامی ڈھانچے کا مجمل خاکہ ملاحظہ کریں۔

1۔ صوبائی یونٹس ختم کر دیے جائیں، ملک بھر کے انتظامات مرکز چلائے، ملک انتظامی طور پر چار درجوں میں تقسیم ہو۔ صوبے کے اکثر دفاتر ڈویژن میں موجود ہوں گے۔

مرکز ڈویژن ضلع تحصیل

2۔ صوبائی اسمبلیاں ختم ہوجائیں گی، صرف ایک مرکزی اسمبلی رہے گی۔ صدر، وزیراعلیٰ اور گورنر کا عہدہ ختم کر دیا جائے۔

3۔ پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہو، قومی اسمبلی اور سینٹ۔
4۔ قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھا دی جائیں، قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ختم کردی جائیں۔
5۔ سینٹ کی نشستیں مخصوص ہوں جو قومی اسمبلی میں تناسب کے حساب سے پارٹیز کو دی جائیں۔

6۔ سینٹ کی تمام نشستیں ٹیکنوکریٹس کے لیے مخصوص ہوں، ٹیکنوکریٹس کے لیے متعلقہ شعبوں میں تعلیم اور استعداد کو اہلیت کا معیار رکھا جائے۔

7۔ بنیادی جمہوری نظام فعال کیا جائے، مقامی حکومتوں کے انتخابات ہمیشہ قومی انتخابات سے قبل ہوں۔

ان بنیادی اصلاحات کے بعد صوبائی تعصبات کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو سہولت ہوگی، صوبوں اور مرکز کے اختیارات میں تصادم کا تصور نہیں رہے گا، کلیش آف پاور نہیں ہو گا لیکن اگر یہی نظام باقی رہا تو اٹھارہویں ترمیم میں دیے گئے صوبائی اختیارات کی بدولت مرکز ہمیشہ کمزور رہے گا، ملک اقتصادی و سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments