حکومت کا لالی پاپ


مئی کے مہینے میں پریس کلب پاکستان یوکے کے زیر اہتمام مانچسٹر میں محمود ہاشمی میموریل اچیومنٹ ایوارڈ کا انعقاد کیا گیا۔ ہم بھی اپنا ایوارڈ وصول کرنے مانچسٹر پہنچے۔ وہاں جنگ کے ایک بہت ہی سینیئر کالم نگار سے ملاقات ہوئی جو ماضی قریب میں مسیحیوں کے انتہائی حساس سیاسی ایشوز پر لکھتے رہے ہیں۔ پچھلے 15 سال سے وہ کالم لکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ ان کے جنگ میں شائع ہونے والے کالموں پر مبنی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں ان کا انٹرویو کروں مگر انہوں نے بڑے پیا ر سے منع کر دیا۔

بہت اصرار کے باوجود بھی وہ راضی نہ ہوئے۔ حالانکہ وہ ہر سماجی و سیاسی تقریبات میں بھر پور حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے انٹرویو نہ دینے کی وجہ بتانے سے بھی گریز کیا۔ ایسے ہی اکثر میرے دوست بھی مجھ سے پوچھتے ہیں۔ کہ آپ کی بڑی پہچان ایک کالم نگار کی ہے تو آپ نے کالم لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ میں بھی ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ 1988 سے لے اب تک کا ایک عرصہ ہوتا ہے۔ تقریباً تمام بڑے قومی اخبارات میں باقاعدگی سے لکھ چکا ہوں۔

آج الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ میں نے اب زیادہ توجہ اس طرف دینا شروع کر دی ہے۔ سیاسی اور مذہبی ایشوز کے علاوہ، میں کمیونٹی کے پسے ہوئے لوگوں کے ان بنیادی ایشوز پر زیادہ توجہ دیتا ہوں۔ جو ان کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ یعنی معاشی، تعلیمی، قانون سے لاعلمی اور مذہبی ایشور پر میں الیکڑانک میڈیا کے ذریعے شعور و آگہی دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ گویا قلم کی جگہ آواز کا زیادہ استعمال شروع کر دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بڑی شدت سے ہوتا ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 75 سال گزر گئے ہیں۔

اس سال ہم 14 اگست کو پاکستان کی 75 ویں یعنی ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔ کرسچن کمیونٹی اگرچہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ان کی تعلیمی اور معاشی حالت پہلے سے قدرے بہتر دکھائی دیتی ہے۔ مگر ان کے بڑے مسائل یعنی امتیازی سلوک اور عدم تحفظ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی ان کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قانون سازی کی گئی۔ اقلیتوں کی خوشحالی کے لئے کام ہوتا بھی کیسے۔ پچھلی دو

دہائیوں سے ملک سیاسی کشیدگی سے باہر نہیں نکل سکا۔ ہر آنے والی حکومت اقتدار سے چمٹے رہنے اور اک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہی ہے۔ اس وقت ملکی سیاست اور معیشت بدحالی کا شکار ہے۔ کمیونٹی کے سوشل میڈیا کے خود ساختی سیاسی لیڈر کسی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ قوم پرستی ناپید ہو چکی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو کر وہی عمل دوہرا رہے ہیں۔ جو اس وقت سیاست کا رنگ چل رہا ہے۔

مذہبی بنیاد پرستی اور سیاست نے معاشرے میں شدت پسندی، عدم برداشت، ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کا جو زہر گھول دیا ہے۔ اب وہ معاشرے میں پوری طرح سرایت کر چکا ہے۔ اور اب اس کے اثرات دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں۔ چور، ڈاکو جیسے خطابات اور القابات عام زبان میں استعمال ہو رہے ہیں۔ عام آدمی کی سوچ اور زبان پر بڑا فرق پڑا ہے۔ ایک دوسرے کی عزت و توقیر کو مٹی میں ملانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ دوست تو دوست، اب خاندان، سگے رشتے دار بھی سیاسی مفادات کے لئے ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔

مسلم لیگ ق کے قائد چوہدری شجاعت حسین سینئر پارلیمنٹرین جنہیں تمام سیاسی لیڈرز احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے ہمیشہ سے خواہش مند رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کی کوششوں اور پی ڈی ایم کے قائدین نے چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کر کے چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا مشترکہ وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا اعلان کر دیا مگر وہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر منعقد ہونے والی میٹنگ سے اٹھ کے سیدھے عمران خان کے گھر پہنچ گئے یہ وہی عمران خان ہے جو پرویز الہی کو ڈاکو کہا کرتا تھا۔

جب مرکز میں تبدیلی کے ساتھ ہی پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پی ٹی آئی کے منتخب ارکان نے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ کاسٹ کر دیے۔ اور حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس وقت چوہدری پرویز الہی کیا ڈرامے رچاتے رہے۔ عدلیہ نے ان بیس پنجاب اسمبلی کے بیس ارکان کو ڈی سیٹ کر دیا اور ان نشستوں پر دوبارہ انتخاب ہوا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے 20 میں سے 15 امیدوار کامیاب ہوئے اور دوبارہ پنجاب میں تحریک اعتماد آئی تو چوہدری شجاعت حسین نے ڈپٹی سپیکر کو باحیثیت قائد خط لکھ دیا کہ مسلم لیگ ق کے ووٹ کو تسلیم نہ کیا جائے۔

جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ تین رکنی پنچ نے ڈپٹی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ یوں چوہدری پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی تحریک انصاف کا آ گیا مگر چوہدری شجاعت حسین کے لکھے خط کا نتیجہ یہ نکلا کہ مونس اور چوہدری پرویز اعلیٰ کے حمایتوں نے ق لیگ کے قائد چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی سے چلتا کر دیا اور ق لیگ کے سیکرٹیریٹ میں لگی شجاعت حسین کی تصویر بھی پھاڑ دی۔ ملکی سیاسی کی یہ صورت حال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ میں بھی دراڑیں پڑنے گئی ہیں۔

پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو ہٹانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں تاکہ پچھلے 8 سالوں سے فارن فنڈنگ کیس کو روکا جا سکے۔ بقول عمران خان وہ چور ڈاکو اپوزیشن سے مذاکرات نہیں کریں۔ گڈ گورنس کا فقدان ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاست کیا رنگ لاتی ہے، خدا ہی جانے۔ اس 14 اگست کو پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی منائی جا رہی ہے اور پاکستان کی عوام ایک طرف سیاست اور دوسری طرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے پریشان ہے۔ اور اقلیتیں، جنہیں کسی بھی کھاتے میں نہیں لیا جاتا۔ حکومت کے کسی لالی پاپ سے پھر چپ ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments