مسلم لیگ ق اور پاکستان سے علیحدہ ضلع خوشاب


ابھی پنجاب میں مسلم لیگ ق کے پرویز الہیٰ صاحب کو وزیر اعلیٰ بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تھے کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ خدمت کے بلند و بانگ دعووں کے ساتھ آنے کے بعد مسلم لیگ ق کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں نے ایسے مطالبات شروع کر دیے ہیں جو کہ آئین پاکستان کی توہین اور قائد اعظم کے نظریات سے غداری کے مترادف ہیں۔ مسلم لیگ ق پنجاب کے نائب صدر ملک الیاس اعوان صاحب نے 30 اگست کو خوشاب کے ڈپٹی کمشنر کے نام ایک خط لکھا ہے۔ کسی تبصرہ سے قبل مناسب ہو گا کہ اس کھلے خط کے کچھ حصے درج کیے جائیں۔ تاکہ پڑھنے والوں کو اس خط کے مندرجات کا اندازہ ہو سکے۔ وہ لکھتے ہیں:

”عنوان : آئین پاکستان کے مطابق جوہر آباد شہر میں قادیانیوں کو سیکیورٹی آئین پاکستان سے کھلواڑ ہے بند فرمائی جائے۔

جناب عالی!

گزارش ہے کہ قادیانی اسلامی ریاست پاکستان میں آزادانہ عبادت نہیں کر سکتے بھٹو شہید کی حکومت کے دوران ان کو ایک جگہ چناب نگر میں دے دی گئی تھی جس کا ایک مدت کے لئے معاہدہ ہے۔ اس کے باہر وہ کسی قسم کی عبادت نہیں کر سکتے۔ ”

پھر اس عجیب الخلقت خط کے آخر میں وہ ایک اور چھلانگ مار کر یہ مطالبہ کرتے ہیں :

”التماس ہے کہ فل فور [نقل بمطابق اصل] ان کی سیکیورٹی ختم کی جائے انکوائری کی جائے۔ جو لوگ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ان کو ضلع بدر کیا جائے۔ نوازش ہوگی۔“

اس خط میں پڑھنے والوں کو مرعوب کرنے کے لئے بار بار آئین پاکستان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ مسلم لیگ ق نے اپنے عہدیداروں کو آئین پاکستان کا کون سا نسخہ مہیا کیا ہے؟ لیکن آئین کا جو نسخہ ہم نے پڑھا ہے اور جو خود حکومت پاکستان کی سائٹ پر مہیا کیا گیا ہے، اس کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے ملک الیاس اعوان کا آئینی مطالعہ آئین کے دوسرے باب تک بھی نہیں پہنچا۔ ویسے تو اس خط کا سر پیر ڈھونڈنا مشکل ہے لیکن ہم آغاز سے ہی اس خط کا اور پاکستان کے آئین کا موازنہ کر کے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

ملک الیاس صاحب بہادر اس خط کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ قادیانیوں کو سیکیورٹی مہیا کرنا تو آئین پاکستان سے کھلواڑ ہے۔ مجھے علم نہیں کہ ان کا اشارہ کس سیکیورٹی کی طرف تھا۔ لیکن یہ بات واضح ہے ان کا نظریہ ہے کہ قادیانیوں کو سیکیورٹی مہیا کرنے کی کیا ضرورت کیونکہ قادیانیوں کو زندہ رہنے جیسی ذہنی عیاشی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میری درخواست ہے کہ صاحب موصوف آئین کی شق نمبر 9 ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں لکھا ہے :

”کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے اس جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔“

انسانی زندگی اور آزادی ہر شخص کا حق ہے خواہ اس کا تعلق کسی نسل، مذہب یا سیاسی سوچ سے ہو۔ اگر کسی شخص کو بھی سیکیورٹی کی ضرورت ہے تو ریاست کا یہ فرض ہے کہ اسے سیکیورٹی مہیا کی جائے۔ سیکیورٹی مہیا کرنا آئین پاکستان سے کھلواڑ کس طرح بن گیا؟

اس کے بعد یہ صاحب آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق پر دست درازی جاری رکھتے ہوئے یہ فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ قادیانی اسلامی ریاست پاکستان میں آزادانہ عبادت نہیں کر سکتے۔ کوئی ان سے دریافت کرے کہ بھلا کیوں نہیں کر سکتے؟ آئین کی کون سی شق ہے جو کہ احمدیوں کو عبادت کرنے سے روکتی ہے؟ ویسے مختلف سیاسی جماعتیں آج تک ملک میں قتل و غارت تو روک نہیں سکیں، اگر خیال آیا تو یہ کہ ملک میں عبادت پر پابندی لگا دی جائے۔ آئین پاکستان کی شق 20 میں تو لکھا ہے کہ ”قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا۔“ یہاں ہر شخص سے مراد ہر شخص ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی نسل، کسی سوچ، کسی مسلک یا کسی مذہب سے ہو۔

اس کے بعد وہ نہلے پر دہلا مارتے ہوئے یہ انکشاف کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے دور میں انہیں ایک جگہ چناب نگر دی گئی تھی اور ایک مدت کے لئے اس کا معاہدہ ہوا تھا اور قادیانی اس سے باہر کسی قسم کی عبادت نہیں کر سکتے۔ سب سے پہلے تو یہ غلطی درست فرما لیں کہ بھٹو صاحب کے دور میں احمدیوں کو کسی قسم کے کوئی جگہ نہیں دی گئی تھی۔ جس شہر کی زمین کا وہ ذکر فرما رہے ہیں وہ آزادی کے کچھ عرصہ بعد احمدیوں نے حکومت سے خریدی تھی۔

اور بھٹو صاحب کے دور حکومت سے بہت قبل یہ شہر آباد ہو چکا تھا۔ اور احمدیوں کا بھٹو صاحب کی حکومت سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا جس میں احمدیوں نے اپنے بنیادی حقوق چھوڑ دینے کا اعلان کیا ہو۔ یہ فرضی معاہدہ ان صاحب کی ذہنی اختراع ہے۔ اگر انہوں نے یہ لمبی چھوڑ دی ہے تو مناسب ہو گا اس کا ثبوت بھی مہیا کریں۔

مسلم لیگ ق کے لیڈر غور فرمائیں کہ ان کی جماعت کے نام میں ’ق‘ کا اضافہ قائد اعظم سے اخذ کیا گیا تھا۔ مناسب ہو گا کہ اگر وہ کبھی قائد اعظم کے افکار کا مطالعہ بھی فرما لیں۔ میں قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ اس کو پڑھیں اور ملک الیاس اعوان صاحب کے خط سے موازنہ فرمائیں۔ قائد اعظم آزادی سے قبل ہندوستان میں پائے جانے والے مذہبی اختلاف کا ذکر کے فرماتے ہیں :

” اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ چیز ہندوستان کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو چکے ہوتے۔ کوئی طاقت کسی قوم کو غلام نہیں رکھ سکتی اور خاص طور پر چالیس کروڑ افراد پر مشتمل قوم کو اپنا محکوم بنا کر نہیں رکھ سکتی۔ کوئی قوم آپ کے ملک پر قبضہ نہ کر سکتی اور اگر یہ قبضہ ہو بھی جاتا تو اس قبضہ کو طویل مدت تک برقرار نہ رکھ سکتی اگر یہ [مذہبی اختلاف]نہ ہوتا۔ چنانچہ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں کو جانے کے لئے آزاد ہیں۔ ریاست پاکستان میں آپ اپنی مسجدوں کو یا جو بھی آپ کی عبادت کی جگہ ہے وہاں پر جانے کے لئے آزاد ہیں۔ آپ کس مذہب یا قوم یا عقیدہ سے وابستہ ہیں اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔“

ملاحظہ فرمائیں۔ کہ قوموں کو غلام کس طرح رکھا جاتا ہے۔ بیرونی طاقتیں جب کسی قوم کو غلام رکھنا چاہیں تو ان کے درمیان مذہبی اختلافات پیدا کر کے انہیں ان اختلافات میں الجھا کر اپنا غلام بنائے رکھتی ہیں۔ اور یہی مجرب نسخہ ہمارے پر آزمایا جا رہا ہے۔

اب میں اس خط کے آخری حصہ کی طرف آتا ہوں۔ اس حصہ میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے جو لوگ ختم نبوت پر ایمان نہیں لاتے انہیں ضلع بدر کیا جائے۔ بہت خوب کس دھڑلے سے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کس ضلع میں کون سے مسلک سے وابستہ شخص رہ سکے گا اور کون سے مسلک سے وابستہ شخص نہیں رہ سکے گا۔ اور یہ مطالبہ آئین کے واسطے دے کر کیا جا رہا ہے۔ آئین کی شق 15 میں یہ درج ہے کہ ہر شہری کو پاکستان کے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اس کے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے کا اختیار ہو گا۔ آئین کی اس شق کے ہوتے ہوئے کس قانون کے تحت یہ اوٹ پٹانگ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ احمدیوں کو ضلع خوشاب سے نکال دیا جائے۔

یہ ماورائے آئین مطالبہ کس بیرونی ہاتھ کی شہ پر کیا جا رہا ہے۔ آج جب اس بحران میں پاکستان کو سب سے زیادہ اتحاد کی ضرورت تھی، یہ اختلاف اور فساد کس کے کہنے پر پیدا کیا جا رہا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہو گا؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ضلع خوشاب میں پاکستان کے آئین کی عملداری قائم نہیں ہے۔ اور جس علاقہ میں کسی ملک کے آئین کی عملداری قائم نہ ہو وہ علاقہ اس ملک کا حصہ نہیں رہتا۔ یہ ملک توڑنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے۔ پہلے سوات اور سابق قبائلی علاقہ میں دہشت گردوں کا اقتدار قائم کر کے انہیں پاکستان سے عملی طور پر علیحدہ کرنے کی سازش کی گئی اور اب جبکہ یہ سازش ناکام ہو گئی یہی کوشش پنجاب کے اضلاع شروع کی جا رہی ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کے خلاف آئین مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں۔ جب 1974 میں احمدیوں کے خلاف دوسری آئینی ترمیم منظور کرنے کے لئے کارروائی ہو رہی تھی تو 5 ستمبر کی کارروائی میں ایک ممبر ملک سلیمان صاحب نے قومی اسمبلی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ احمدیوں کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں۔ اور 3 ستمبر کی کارروائی میں ایک اور ممبر جمال محمد کوریجہ صاحب نے گالیاں دینے کے بعد کہا تھا کہ ان کو پاکستان سے نکال دینا چاہیے۔

اور 6 ستمبر کی کارروائی کے دوران ایک اور ممبر نعمت اللہ شنواری صاحب نے کہا تھا کہ ہم قبائلی علاقہ کے لوگوں کو اجازت دی جائے کہ وہ احمدیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیں۔ اس طرح خود اسمبلی کے اندر آئین پاکستان کی توہین کرتے ہوئے ممبران اسمبلی نے احمدیوں کی قتل و غارت کے اعلانات کیے تھے۔ لیکن یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ پھر اسی قبائلی علاقہ سے دہشت گردی کی وہ منظم وبا اٹھی جس میں ستر ہزار پاکستانیوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا۔ جب کسی ایک گروہ کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو پھر کسی کے بنیادی حقوق محفوظ نہیں رہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments