سوئٹزرلینڈ بننا کھیل نہیں ہے


سوئٹزرلینڈ آنے والے سیاحوں میں جرمن، امریکی اور برطانوی شہریوں کے بعد چینیوں کا نمبر آتا ہے۔ بعد ازاں خلیجی باشندے اور ہندوستانی یہاں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔

ایک دوست نے مفت مشورہ دیا کہ سوئٹزرلینڈ جانے کی کیا ضرورت ہے جب خود پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن سے مالامال ہیں۔ تو دوست بات یہ ہے کہ دنیا کا کون سا خطہ ہے جہاں دل خوش کن مناظر کی کوئی کمی ہے؟

جدید سیاحت کا ارتقاء پچھلے ایک سو برسوں میں ہوا ہے جس دوران نقل و حمل میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں فاصلے سمٹ گئے، وہ سفر جو صرف انتہائی امیر طبقات کی دسترس میں تھے نسبتاً سفید پوش افراد کی راہ گزر بن گئے۔ سیاحت مختلف زبانوں، نسل اور عقائد کے انسانوں کو قریب لانے کا ذریعہ ہے۔ انسان سنی سنائی باتوں پر تکیہ کرنے کے بجائے خود اپنی آنکھوں سے مختلف خطوں میں موجود سہولیات یا ان کے فقدان، ترقی، تنزلی، اخلاق، بداخلاقی، تحفظ، عدم تحفظ سب کا جائزہ لینے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی تاریخ سمجھنے اور موازنہ کرنے کی صلاحیت اجاگر ہوتی ہے۔ ثقافتی تبادلہ ہوتا ہے۔ غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔

 

صفائی

سوئس سرزمین میں داخل ہوتے ہی صفائی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ جابجا چار مختلف قسم کے کوڑے دان نظر آتے ہیں جہاں بوتل، کاغذ، نامیاتی اجزاء اور عام کچرے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے تاکہ انہیں ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکے۔ اس سے عوام کی تعلیم اور شعور کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو۔ آخر سوئٹزرلینڈ دنیا میں انسانی ترقی میں نمبر ایک ملک ہے۔ صاف فضاء، نکاسیٔ آب اور صاف پانی کی فراہمی میں بھی اس نے اقوام عالم میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ فی کس آمدنی میں یہ دنیا کی اولین دس اقوام میں شامل ہے۔

بھارتی سیاح

سوئٹزرلینڈ میں انڈین سیاح چھائے ہوئے ہیں۔ کسی کونے میں چلے جائیں، ٹرین میں بیٹھیں، پہاڑ پر چڑھ جائیں ہندوستانی اردو سے بچ جانا ناممکن ہوتا ہے۔ انٹرلاکن میں بازار کے بیچوں بیچ یش چوپڑا جی کا مجسمہ نصب ہے۔ ہر ہندوستانی ان کے درشن کر کے تصویر ضرور بنواتا ہے۔ اسی شہر سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر جنگفراؤش نامی برفیلی پہاڑی چوٹی ہے جس تک پہنچنے کے لئے ٹرائی کیبل پانورامک گنڈولا یعنی شفاف کیبل کار میں بیٹھ کر ایک اسٹیشن اور اس سے آگے گراری دار (کاگ ویل) ریل میں لے جاتے ہیں۔

 

یہ پورے یورپ میں سطح سمندر سے فاصلے کے لحاظ سے سب سے اونچا ٹرین سٹیشن ہے اور انسانی عزم و حوصلے کی عملی مثال ہے۔ ظاہر ہے اس نرالی کارکردگی کو دیکھنے کی بھرپور قیمت وصول کی جاتی ہے۔ ہمیں زیادہ حیرانی یہ دیکھ کر ہوئی کہ برف پوش پہاڑ کے سر پر قائم اس شاپنگ سینٹر میں سوئس گھڑیوں کی دکانوں سے بھی اوپر آخری منزل پر ”بالی وڈ ریسٹورنٹ“ قائم ہے۔ یہاں دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ جے پور کا ایک نوجوان انڈین جوڑا بیٹھا تھا جو بنگلور میں نچلے درجہ کی آئی ٹی نوکریوں سے منسلک تھے اور انہیں سوئٹزرلینڈ آنے کا پیکج ساڑھے پانچ لاکھ ہندوستانی روپے کا پڑا تھا۔ گھومنا پھرنا اور کھانا الگ۔ آج کے حساب سے یہ ساڑھے سولہ لاکھ پاکستانی روپے بنے۔ سوئٹزرلینڈ کی سیاحت پر شائع ہر انگریزی کتاب میں ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ کا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔ ہندوستانیوں کی شکم پری کے لئے پچھلے دو سال سے یہاں میکڈونلڈ پر تیز مرچ مسالے والے ویجیٹیرین برگر بھی دستیاب ہیں۔

تعلیم

سوئس نظام تعلیم بڑا مختلف اور دلچسپ ہے۔ چار پانچ سال کے ننھے ننھے بچے آپ کو ٹکڑیوں میں یا اکیلے اسکول کی طرف پیدل جاتے ملیں گے۔ نہ ابا جان ہاتھ پکڑے ساتھ ساتھ چلتے نظر آئے نہ اماں ٹفن اور بیگ سنبھالے پیچھے پیچھے۔ اکیلے آنے جانے سے بچوں میں کم عمر سے ہی آزادی، خودمختاری اور غیر محتاجی کا تصور راسخ ہوجاتا ہے۔ قوت مشاہدہ اور قوت فیصلہ کو مہمیز ملتی ہے۔ یونیفارم کا جھنجھٹ نہیں۔ بچے نہ اغوا ہوتے ہیں نہ انہیں ریپ کیا جاتا ہے۔

بہت سے دیگر ممالک نے سوئس نظام تعلیم سے سیکھا اور اپنی اصلاح کی۔ تعلیم پر یہ لوگ سالانہ بجٹ کا 16 فیصد یا جی ڈی پی کا ساڑھے چھ فیصد کھپا دیتے ہیں۔ تیرہ جماعت تک تعلیم مفت اور بہت معیاری ہے لیکن نویں کے بعد اسکول کی تعلیم کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت (اپرینٹس شپ) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کا کچھ مشاہرہ بھی دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم مفت نہیں لیکن برطانیہ سے نسبتاً سستی ہے۔

سوئس تجدیدی سوچ میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی اول قوم ہیں۔ فی ملین آبادی سب سے زیادہ نوبل پرائز حاصل کرنے کا تاج بھی اسی قوم کے سر پر سجا ہے۔ دو بڑے مفکرین جن کو دنیا بھر میں تعلیم کے مضمون میں ضرور پڑھایا جاتا ہے یہیں کے باسی تھے۔ روسو جنہیں فرانسیسی انقلاب کے نقیبوں میں شمار کرتے ہیں کا ناول ایمیل ایک جدید نظام تعلیم کی عکاسی کرتا ہے جس میں بچے فطرت سے سیکھتے ہیں۔ اسی طرح ژین پیازے جو بچوں میں ادراکی ارتقاء پر کام کرنے والے پہلے نفسیات دان تھے۔

دفاعی نظام

سوئٹزرلینڈ میں تمام بالغ مردوں پر 18 ہفتے کی عسکری تربیت لازمی ہے جبکہ عورتوں کے لئے یہ اختیاری ہے۔ اس تربیت یافتہ فورس کو جس کی تعداد پندرہ سے بیس لاکھ کے درمیان ہے کسی بھی وقت ملکی دفاع کے لئے طلب کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف باقاعدہ فوج کی تعداد میں 2003 ء کی آئینی ترمیم کے بعد سے مسلسل کمی کی جا رہی ہے اور یہ چار لاکھ سے سکڑتے سکڑتے اب ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ مجموعی قومی آمدنی کے محض اعشاریہ 7 فیصد کے ساتھ فوجی اخراجات نہایت غیر متاثر کن ہیں۔

ائرپورٹ، ٹرین اسٹیشن اور ہر مقام سیاحت پر وکٹورنکس کمپنی کی دکانوں پر سوئس چاقو، سوئس فوج کے کمبل اور سویٹر وغیرہ بکتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ شاید اس بہانے عسکری ادارے کچھ کما کھا لیتے ہوں گے لیکن تحقیق کرنے پر جب معلوم ہوا کہ یہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے تو سوئس نظام دفاع پر اعتماد ڈگمگا سا گیا۔

سوئٹزرلینڈ کا اصل عجوبہ۔ اس کا سیاسی نظام

بحیثیت ایک ملک سوئٹزرلینڈ کی تاریخ کا آغاز پہلی اگست 1291 ء سے ہوتا ہے جب چند پہاڑی قبائل نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف متحد ہو کر اپنا دفاع کرنے کا معاہدہ تحریر کیا۔ اس دور کو کمزور وفاقی وحدت یا کنفیڈریسی کہا جاتا ہے۔ قدیم قبائلی تنظیموں کے یہ اتحاد ٹوٹتے جڑتے رہے اس خطے کو مختلف جنگوں، بیرونی مداخلت، خانہ جنگی، غلامی سب برداشت کرنا پڑا۔ بالآخر 1815 ء میں اس نے اپنی سرحدوں کا تعین کر کے اقوام عالم میں اپنی نئی شناخت قائم کی اور اپنے غیر جانبدار رہنے کا عزم کر لیا۔ اس کی جدید تاریخ کا اہم ترین سنگ میل 1848 ء میں اس وقت عبور ہوا جب علاقائی اکائیوں کے ڈھیلے ڈھالے گٹھ جوڑ نے ایک نیا وفاقی آئین بنایا۔

ریاستی مشینری میں سب سے اوپر کنفیڈریشن ہے جو اصل میں وفاق ہے۔ اس سے نیچے 26 علاقائی اکائیاں یا کینٹن ہیں جو دراصل پاکستانی صوبے، ہندوستانی ریاستوں یا برطانیہ کی کاؤنٹی کے ہم معنی ہیں۔

تمام 26 کینٹن کو اپنا آئین، عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور نچلی کورٹس رکھنے کا حق حاصل ہے۔ صحت، بہبود عامہ، امن و امان، تعلیم اور محاصل کے نظام بنانے میں یہ خود مختار ہیں۔ ان کے اپنے جھنڈے اور اپنی زبانیں ہیں۔ ان میں سے 19 میں جرمن، 4 فرانسیسی، 2 اطالوی جبکہ صرف ایک کینٹن میں رومانش زبان بولی جاتی ہے لیکن ان چاروں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ہر سوئس شہری کم از کم دو زبانوں پر عبور رکھتا ہے۔ قومی یا رابطے کی زبان قرار دے کر کسی ایک زبان کو مسلط نہیں کیا گیا۔ بڑی اکثریت انگریزی بولتی اور سمجھتی ہے۔ کینٹن یقینی بناتے ہیں کہ ان کی زبان، ثقافت، شناخت، تاریخ اور طرز تعمیر اپنی اہمیت برقرار رکھیں، بچے ان سے واقف ہوں اور یہ معدوم نہ ہو جائیں۔

کینٹن کے نیچے سوا دو ہزار کمیون یا بلدیاتی کونسل ہیں۔ جبکہ اوپر پاکستان کی طرح دو ایوانی پارلیمان پے۔ قومی کونسل ( قومی اسمبلی) اور ریاستوں کی کونسل (سینیٹ) ۔ دونوں ایوانوں کے ارکان کا چناؤ براہ راست عوامی ووٹ سے چار سال کے لئے ہوتا ہے۔ حکومت کا نظام بھی انوکھا ہے۔ وفاقی حکومت میں صرف سات وزراء ہوتے ہیں جو دنیا کے اس منظم ترین ملک کا نظام چلانے کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ 1848 ء سے یہ تعداد سات ہی رہی ہے۔

یہ سات آپس میں سے ایک کو چن لیتے ہیں جسے سوئٹزرلینڈ کا صدر کہا جاتا ہے۔ یہ خوش قسمت شخص اپنی وزارت دیکھنے کے ساتھ ساتھ کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی کرتا ہے۔ صدارت پر فائز رہنے کی مدت صرف ایک سال ہے یعنی سوئٹزرلینڈ میں ہر سال ایک نیا فرد کرسیٔ صدارت پر براجمان ہوتا ہے۔ اتنی کم مدت حکومت کے باوجود سوئٹزرلینڈ کو سیاسی طور پر مستحکم ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔

اپنے مثالی وفاقی نظام کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ براہ راست جمہوریت کا بہترین عملی مظہر ہے۔ یہاں ہر قانون سازی کے لئے عوامی ریفرنڈم کرایا جاتا ہے۔ سال میں کم و بیش چار ریفرنڈم منعقد ہوتے ہیں۔ اس سال ہونے والے استصواب رائے انسانی و حیوانی تجربات، تمباکو کی تشہیر پر پابندی اور اسٹیمپ ڈیوٹی کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے تھے۔ پچھلے سال چہرہ کو ڈھانپنے پر پابندی اور انڈونیشیا کے ساتھ کاروباری تعلقات پر عوام سے رائے لی گئی۔

تضادات

اس جنت نظیر ملک کی متضاد باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف یہاں کم از کم فی گھنٹہ تنخواہ 23 فرانک ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے لیکن دوسری طرف شدید مہنگائی کے باعث اس کم از کم تنخواہ میں گزارا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

یہاں 1991ء میں جاکر تمام عورتوں کو حق رائے دہی نصیب ہوسکا جبکہ 2004ء تک گھریلو تشدد جرم ہی نہیں تھا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبداری کا بہت چرچا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دوران جرمنی سے سوئس بینکوں میں آنے والی دولت کو چھپا کر رکھا گیا۔ عالمی یہودی کانگریس کی طرف سے قائم کیے گئے مقدمے کے تصفیے میں بالآخر سوئس بینکوں کو سوا ارب روپے کی ادائیگی کرنی پڑی۔

2019 ء میں جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سوئٹزرلینڈ کو دنیا کے کم کرپٹ ممالک میں دوسری پوزیشن دے رہا تھا اسی وقت ٹیکس جسٹس نیٹ ورک سوئس بینکنگ سیکٹر کو دنیا بھر میں کرپٹ ترین قرار دے چکا تھا۔

کیسے مزے کی بات ہے کہ سابق امریکی صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی نے سرزمین سوئس کا سفر اس خوف سے ملتوی کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ وہاں عراق میں جنگی جرائم کے مقدمے میں ان کی گرفتاری کا امکان موجود ہے۔ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا اس سے بڑا ثبوت ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments