ٹرین میں چھپ کر سفر اور خوف کی جھرجھری


تین بائے دو کے ڈبہ نما کمرہ میں گھس کر بیٹھنے اور پھر کئی گھنٹے تک اسی حالت میں رہنے سے میری حالت انتہائی غیر ہو رہی تھی اور خوف سے میرے جسم میں چیونٹیاں سی دوڑ رہی تھیں، وہاں سے گزرتے ہوئے لوگوں سے بچ کر بیٹھنا بھی دشوار گزار ہو رہا تھا مگر مجبوری ہر کام کرا دیتی ہے۔ خدا خدا کر کے الیکٹریکل انجینئر وہاں آیا تو اس نے باہر سے ڈبہ نما کمرے کا لاک کھولا اور پھر دو زانو ہو کر اندر داخل ہوا۔ پوری ٹرین کے اندر یہ ایک واحد ڈبہ نما کمرہ ہے جہاں پر الیکٹریکل انجینئر اپنی ٹول کٹ کے ہمراہ بیٹھنے کا پابند ہوتا ہے یہاں پر بمشکل دو افراد گھٹنوں کو سینے سے لگا کر بیٹھ سکتے ہیں، سیدھے ہونا یا لیٹنا ناممکن ہے۔

مجھے یہاں پر ایک پولیس والا بٹھا کر گیا تھا کیونکہ میں نے ٹرین کا ٹکٹ نہیں خریدا تھا پولیس اہلکار نے الیکٹریکل انجینئر سے سازباز کر کے مجھے یہاں بٹھا دیا اور 3 سو روپے بھی مجھ سے لے لیے پھر تاکید کی کہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر اپنا سفر جاری رکھوں، کراچی کے قریب پہنچ کر وہ مجھے ٹکٹ بھی لا دیں گے ایسا وعدہ کر کے وہ پولیس والا غائب ہو گیا اور مجھے اس انجان الیکٹریکل انجینئر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔

بغیر ٹکٹ اور انجان افراد کے رحم وکرم پر سفر کرنے کا یہ پہلا تلخ تجربہ تھا جو میں بحالت مجبوری کر رہا تھا اور بار بار مجھے یہ سوچ کر پسینے چھوٹ رہے تھے کہ پوری ٹرین میں ایک پولیس اہلکار اور ایک الیکٹریکل انجینئر کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ میں اس بری حالت میں ٹرین میں سفر کر رہا ہوں اور اگر ان دونوں افراد کی نیت میں فتور پیدا ہوا اور میرے ساتھ کوئی انہونی ہو گئی تو میں کس طرح اس واقعہ کو ثابت کر سکوں گا کیونکہ میرے پاس سفری ثبوت بھی نہ تھا۔

بہرحال اپنے دل کو مضبوط کر کے سفر کی تمام تر دشواریوں کو سہتا رہا۔ جوں ہی کوئی اسٹیشن نزدیک آنے کے آثار محسوس ہوتے میں سہم سا جاتا کہ ابھی کسی نے مجھے اس ڈبے سے برآمد کرلینا ہے مگر ایسا کچھ نہ ہوا اور میں ڈرتا، پیسنے پونچھتا رہا۔ میرے بال بکھرے ہوئے اور بے ترتیب ہوچکے تھے جینز کی پینٹ اور چیک دار شرٹ انتہائی گرد آلود ہو چکی تھی بوٹ ایسے کہ شاید کچرے سے اٹھائے ہوں، اس حالت میں میرے جاننے والے مجھے دیکھتے تو شاید کبھی پہچان نہ پاتے کیونکہ ایسی حالت کسی سڑک چھاپ، آوارہ گرد کی تو ہو سکتی تھی مگر کسی قومی اخبار کے رپورٹر کی نہیں، جی ہاں آپ کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ ایک قومی اخبار کے رپورٹر کو اس حالت میں اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی تو میں یہاں بتاتا چلوں کہ اخبار نویسی، کالم نگاری، نثر نگاری، مضمون نویسی، آپ بیتی یا سفر کی روداد لکھنا اتنا بھی آسان نہیں جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔

ٹرین میں تین بائے دو کے ایک چھوٹے سے بکس کو الیکٹریکل انجینئر کا کیبن یا کمرہ کہنا انتہائی حیران کن ہے مگر محکمہ ریلوے قوانین کے مطابق ہر ٹرین میں بجلی کی ہر وقت بحالی کو ممکن بنانے کے لیے الیکٹریکل انجینئر کا ہونا ازحد لازمی ہے تاہم یہ فریضہ بہت کم ایماندار سرانجام دیتے نظر آئے ہیں اکثر و بیشتر پوری ٹرین میں آپ کو ایسا کوئی بندہ نظر نہیں آتا جو بجلی کے بند پنکھوں اور لائٹس کو درست یا پھر اے سی کی خرابی کو دور کرتا ملے۔ خیر اپنی سفری روداد کی طرف آتے ہیں۔

رحیم یارخان ریلوے اسٹیشن سے سفر شروع ہوا اور پہلے بڑے اسٹیشن روہڑی پر ٹرین رکی تو میں خوف کے مارے ٹرین سے اترتے ہوئے ہچکچا رہا تھا حالانکہ مجھے اس وقت شدید حاجت محسوس ہو رہی تھی، اسی دوران الیکٹریکل انجینئر وہاں آیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں نیچے اتر کر کچھ کھا پی لوں یا کوئی حاجت ہوتو رفع کرلوں۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ منہ ہاتھ دھوکر اپنی حالت بھی بہتر کرلو تاکہ کسی کو شک نہ گزرے کہ خدانخواستہ میں ٹرین میں چھپ کر سفر کر رہا ہوں۔

اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں فوراً نیچے اترا اور قریب ہی مردوں کے عوامی واش روم کی طرف دوڑا، حاجت رفع کر کے میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو کچھ لوگ ایک نل کے قریب ہاتھ منہ دھوتے نظر آئے میں بھی خاموشی سے وہاں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ باری آنے پر منہ ہاتھ دھوکر اپنی حالت بہتر کی اور اپنے گردآلود بالوں کو ہاتھوں کی انگلیاں بنا کر کنگھا کرنے کی کوشش کی تاکہ ظاہری حالت سے میں بھی عام مسافر لگوں، اپنے آپ کو فریش محسوس کرتے ہوئے میرے اندر ایک نئی قوت اور خوداعتمادی پیدا ہوئی تو چائے پیتے لوگوں کو دیکھ کر چائے کی بھی شدید طلب محسوس ہوئی تو چائے کے اسٹال پر پہنچا اور چائے لے کر ہلکی ہلکی چسکیوں سے اپنے جسم کی تھکان کو دور کرنے لگا۔

چائے پیتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ جو لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوں گے کیا وہ واقعی ایسی ہی حالت سے گزرتے ہوں گے کہ ہر وقت ان کے سر پر خوف طاری رہتا ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی بغیر ٹکٹ پکڑا جاتا ہے تو اسے ٹرین سے ابتدائی اسٹیشن سے آخری اسٹیشن تک کا جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے اور جن کے پاس رقم ہی نہ ہوتو ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں ریلوے پولیس متعلقہ تھانہ میں بند کر دیتی ہے اور اس طرح ان کی ذلالت کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے جس میں معمولی سا معمولی سپاہی، اہلکار، نائب قاصد و دیگر عملہ بھی ان کی تذلیل کر رہا ہوتا ہے اور انسان بے بسی سے سب کی سننے پر مجبور ہوتا ہے۔

یہ سب سوچتے ہوئے میرے جسم میں ایک جھرجھری سی پیدا ہوئی اور میں نے جلدی جلدی چائے ختم کر کے واپس اپنے ڈبہ نما کیبن میں پہنچ کر چھپنے کو ہی ترجیح دی تاکہ ذہن کو یکسوئی حاصل ہو سکے۔ وہاں پہنچ کر میں نے اپنی حالت پر دوبارہ غور کیا تو خود کو ہی کوسنا شروع کر دیا کہ کیا ضرورت تھی ایڈونچر کی، کسی بھی ایسے بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے ماہر سے تمام معلومات لے کر بھی تو مضمون لکھا جاسکتا تھا مگر جو کیفیت انسان اپنے اندر محسوس کرتا ہے وہ کسی دوسرے کے سفر کو اپنے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے اتنا بڑا رسک مول لیا اور سفر کی ٹھان لی۔

خدا خدا کر کے ٹرین نے وسل بجائی اور دوبارہ سفر کی تیاری شروع ہو گئی ٹرین میں ایک بار پھر بھگدڑ مچ گئی جو لوگ ٹرین سے باہر تھے بھاگ بھاگ کر ٹرین میں سوار ہو کر اپنی اپنی سیٹوں کی جانب بڑھنے لگے، شور شرابا بڑھا اور پھر آہستہ آہستہ کم ہو کر معمول کی گپ شپ، واقعات، قصے کہانیوں میں تبدیل ہو گیا۔ میں ابھی آگے کے مشکل سفر بارے سوچ ہی رہا تھا کہ وہی پولیس اہلکار ڈبہ کے آگے آ کر رکا اور آواز لگائی کہ باہر آ جاؤں کیونکہ اسے ایک سیٹ مل گئی ہے جہاں پر وہ مجھے بٹھا آئے گا۔

میں جلدی سے باہر آیا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ وہ مجھے کھانے والے ڈبہ میں لے گیا اور باورچی کے کان میں کچھ کھسر پھسر کر کے مجھے ایک سیٹ پر بٹھا دیا۔ کھانے والے ڈبہ میں بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے کچھ کھانا کھا رہے تھے تو کچھ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گہری سوچ میں مگن تھے بہت سے لوگ صرف گپ شپ کر کے ٹائم پاس کر رہے تھے جبکہ کچھ لوگ چادر اوڑھ کر آڑے ترچھے سو رہے تھے، کھانے والی بوگی کے ایک کونے میں رکھے ٹی وی پر گانے بھی چل رہے تھے۔

وہاں موجود سب ہی لوگ کسی نہ کسی مصروفیت میں تھے مگر میری سوچ کا دائرہ وہیں پھنسا ہوا تھا کہ یہاں پر میں کتنی دیر بیٹھ پاؤں گا، کیا یہ سیٹ بھی عارضی ہوگی اور پھر مجھے واپس کی دڑبے میں بند نہ ہونا پڑے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ڈبے کے کنٹریکٹر نے مجھے وہاں سے اٹھا دیا اور کہا کہ کسی اور بوگی میں جاؤ۔ میری تو حالت ہی غیر ہو گئی، میں نے منت سماجت کی کہ مجھے یہیں بیٹھنے دو وہ پولیس اہلکار واپس آئے گا تو اس کے ساتھ ہی چلا جاؤں گا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے ڈبے سے باہر کر کے سیٹ کسی اور کو دے دی۔

ٹرین نے جب ٹنڈو آدم اسٹیشن کراس کیا تو پولیس اہلکار اچانک سے سامنے آیا تو اسے قصہ سنایا اور انتہائی بے بسی کے عالم میں اسے کہا کہ بھائی سیٹ ملے نہ ملے مجھے ٹرین کا ٹکٹ لاکر دو ورنہ پیسے واپس کرو جس پر پولیس اہلکار نے پریشان ہو کر تسلی دی اور کہا کہ حوصلہ رکھو حیدرآباد اسٹیشن آتے ہی وہ اسے ٹکٹ لاکر دے دے گا۔ اس کی بات سن کر میرے اندر کچھ حوصلہ پیدا ہوا اور پھر میں اس پولیس والے کے ساتھ ہی رہا تاکہ کسی مشکل میں نہ پھنس جاؤں، صبح کے آثار نظر آئے اور ٹرین حیدرآباد اسٹیشن پر پہنچی تو پولیس اہلکار نے مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ ٹکٹ لینے جا رہا ہے ابھی واپس آتا ہے۔

میں وہیں رکا رہا مگر وہ پولیس اہلکار ٹرین کے چلنے تک واپس نہ آیا تو میری حالت اس نوخیز ہرنی کے جیسے ہو گئی جو شیروں کے جھنڈ میں پھنس چکی اور اس کے بھاگنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہوں میں کبھی ٹرین کے باہر دیکھتا اور کبھی ایک بوگی سے دوسری بوگی تک جاکر اسے ڈھونڈتا رہا اور ٹکٹ چیکر سے بھی بچنے کی ہر ممکن کوشش میں لگا رہا، پولیس اہلکار کو تلاش کرنے میں ناکام ہوا تو مجھے پکا یقین ہو گیا کہ اب خیر نہیں ٹرین میں اگر کسی نے نہ پکڑا تو کراچی کینٹ اسٹیشن سے باہر کیسے نکل پاؤں گا کیونکہ انجان اسٹیشن پر باہر جانے کے راستوں سے بھی ناواقفیت تھی۔ ٹرین کے باہر دور تک کے منظر کو دیکھنے اور اپنی حالت پر ترس کھانے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہ رہا تھا۔

ٹرین نے جوں ہی لانڈھی اسٹیشن کی سرحد کو چھوا تو انتہائی بھیانک قسم کی بدبو سے پوری ٹرین آلودہ ہو گئی، ناک بند اور سانس روکنے سے بھی بدبو کا خاتمہ نہ ہوسکا اور بالآخر ٹرین لانڈھی اسٹیشن پر ہی رک گئی ابھی میں باہر کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ ایک پولیس اہلکار جسے میں نے پہلی مرتبہ ہی دیکھا تھانے میرے ہاتھ میں ایک ٹکٹ تھما دی اور کہا کہ اس کے دوست نے یہ ٹکٹ دینے کو کہا تھا میں نے پوچھا کہ اس کا دوست پولیس والا کہاں گیا تو اس نے بتایا کہ وہ حیدرآباد اسٹیشن پر ہی اتر گیا تھا آگے اس کی ڈیوٹی ہے لہذا ٹکٹ لو اور اپنا باقی سفر جاری رکھو۔

ٹکٹ پر قیمت دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ اس پر لانڈھی اسٹیشن سے کراچی کینٹ کی قیمت 30 روپے لکھی تھی جس سے ثابت ہوا کہ کسی بھی شخص کو پولیس اہلکار اور ٹرین کے دیگر عملہ سے ملی بھگت کر کے ریلوے کو روزانہ کی بنیاد ہر ہزاروں روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے یہ صرف ایک گاڑی کا احوال ہے جبکہ دن اور رات میں درجنوں ٹرینوں پر ایسے سفر کرنے والے افراد جن میں اکانومی کلاس سے لے کر بزنس کلاس، اے سی اسٹینڈرڈ اور اے سی سلیپر میں بھی لوگ یقیناً سفر کرتے ہوں گے۔ جن کے ریٹس بھی مختلف ہوں گے ۔

بہرحال ٹکٹ میرے ہاتھ میں آتے ہی میرے اعتماد میں بھی خودبخود اضافہ ہو گیا اور میں بغیر کسی مشکل کے کینٹ اسٹیشن پر اتر گیا، کراچی گھر جاتے ہوئے میں نے دل میں ٹھان لی کہ آئندہ کبھی بغیر ٹکٹ سفر نہیں کروں گا چاہے کوئی بھی مجبوری کیوں نہ آڑے آئے۔ سفری روداد پڑھنے والوں کو بھی یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو کسی بڑے امتحان میں ڈالنے کی بجائے آسان اور قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔ کراچی سے واپسی کا سفر ٹکٹ لے کر کیا اور انتہائی پرسکون ماحول میں ٹکٹ چیکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سفر کیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments