سیاسی دنگل میں کون پسپا ہو رہا ہے؟


وفاقی کابینہ نے تحریک انصاف کے خلاف ’ڈکلیریشن‘ سپریم کورٹ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزارت قانون تین روز میں اس کا مسودہ تیار کرے گی پھر ان الزامات کو عام کیا جائے گا جن کی بنیاد پر ڈکلیریشن بھیجا جا رہا ہے۔ وزیر اطلاعات نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو اہم معاملہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے البتہ ان کا تازہ بیان ان دعوؤں کی تائید نہیں کرتا۔

اس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اتحادی پارٹیوں کے دلوں میں کون سا طوفان برپا ہے۔ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے دو ٹوک بیانات میں عمران خان کو سیاست سے ’آؤٹ‘ کرنے کی چھپی ہوئی خواہش کو پڑھنا مشکل نہیں ہے لیکن دوسری طرف حکومت کی ترجمان جب ڈکلیریشن جیسی غیر واضح اصطلاح استعمال کرتے ہوئے میڈیا کو یہ بتاتی ہیں کہ ابھی وزارت قانون اس حوالے سے مسودہ تیار کرے گی، اس کے بعد کابینہ کی منظوری کے بعد اسے سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا، اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو خود ہی یہ پتہ نہیں ہے کہ اس معاملہ میں کیا اقدام کرنا چاہیے۔ یوں حکومتی ترجمان کے بیان کو زمینی حقائق اور سیاسی خواہشوں کے درمیان راستہ نکالنے کی کوشش کہا جاسکتا ہے۔ وزیر اطلاعات نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ایف آئی اے کو جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے معاملات کی تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ جاننے میں ابھی کچھ وقت لگے گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

حکومت اور اتحادی جماعتیں ضرور عمران خان کو نا اہل کروانا چاہتی ہیں لیکن تحریک انصاف کی گرمجوش سیاسی مہم جوئی بھی ان کے پیش نظر ہے۔ حکومت میں تجربہ کار سیاسی لیڈر شامل ہیں۔ اس لئے یہ حقیقت بھی ان کے معلوم ہوگی کہ پنجاب میں حکومت کا اختیار کھو دینے اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں شدید ناکامی کے بعد عملی طور سے شہباز شریف کی حکومت اب اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سندھ کے سوا ملک کی کوئی بھی صوبائی حکومت شاید وفاقی حکومت کا حکم ماننے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ اس کا اظہار وزیر داخلہ کے اس بیان میں بھی ہو چکا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر ان پر پنجاب میں داخلہ پر پابندی لگائی گئی تو صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا جائے گا۔ رانا ثنا اللہ کا یہ بیان وفاقی حکومت کی پریشانی اور بدحواسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلہ اور اس میں تسلیم کیے گئے حقائق کی روشنی میں شہباز حکومت ضرور مطمئن اور خوش ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسے حقیقت حال کا ادراک بھی ہے۔ یہ حقیقت بھی حکومت کے پیش نظر ہوگی کہ اعلیٰ عدالتوں سے تحریک انصاف کو مسلسل ریلیف فراہم ہو رہا ہے۔ اگر اعلیٰ عدلیہ موجودہ سیاسی صورت حال میں مستعد کردار ادا نہ کرتی تو شاید حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانا ممکن نہ ہوتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ کی حکومتی استدعا مسترد کر کے اور پھر متنازعہ سہ رکنی بنچ کی سربراہی میں متنازعہ فیصلہ دے کر بھی واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت کو موجودہ چیف جسٹس کی موجودگی میں بہت زیادہ پر امید نہیں ہونا چاہیے۔ عمر عطا بندیال ابھی مزید ایک سال تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے۔ اگرچہ پنجاب کے سابق ڈپٹی اسپیکر بمقابلہ پرویز الہیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ کو جس مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا دباؤ چیف جسٹس بھی محسوس کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں پانچ نئے ججوں کی تقرری کے سوال پر انہیں جوڈیشل کمیشن میں ناکامی ہوئی ہے۔ ایک غیر متعلقہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے پنجاب کی حکومت سازی میں سپریم کورٹ کے کردار کا ذکر کیا اور دعویٰ کیا کہ اعلی عدالت کی نگرانی ہی کی وجہ سے وہاں شفاف انتخاب ہو سکے تھے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ یہ کشمکش جلد ختم ہو جائے گی لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مستقبل قریب میں سیاسی معاملات پر بنچ بناتے ہوئے اور فیصلے صادر کرتے ہوئے بہر طور بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ خاص طور سے تحریک انصاف کے متعلق معاملات میں عدالت عظمی کے چیف جسٹس اور ان کے حامی ججز عوامی فوکس میں ہوں گے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اگر حکومت عمران خان کی نا اہلی کے لئے کوئی ریفرنس دائر کرتی ہے تو حنیف عباسی کیس میں دیے گئے فیصلہ کی روشنی میں اس مطالبے کو آسانی سے مسترد نہیں کیا جا سکے گا۔ دوسری طرف عدالت اگر عمران خان کو نا اہل کرتی ہے تو اس پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد ہو گا اور تحریک انصاف کی توپوں کا رخ بھی سپریم کورٹ کی طرف موڑا جائے گا جو فی الوقت چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم جوئی کے ذریعے اپنا غصہ نکال رہی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’عمران خان کو نا اہل کر کے دکھائیں اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ ۔ یہ دھمکی براہ راست سپریم کورٹ کو دی جا رہی ہے کیوں کہ تحریک انصاف سمیت پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ حکومت کسی سیاسی رہنما کو نا اہل یا سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی بلکہ اس کے لئے اسے سپریم کورٹ کا فیصلہ لینا ہو گا۔ تحریک انصاف کے لیڈر فواد چوہدری اسی پس منظر میں یہ کہتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانا تو حکومت کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ ایسے میں جب ان ہی کے ایک ساتھی عمران خان پر پابندی کی صورت میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان کا مخاطب کون ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی اس صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اگر عمر ایوب اس بیان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور تحریک انصاف کے دیگر لیڈر بھی اس بیان بازی میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس سے دو باتیں واضح ہوں گی۔ ایک کہ تحریک انصاف کو عمران خان کی نا اہلی کا حقیقی خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ دوئم یہ کہ وہ اس خطرے کو ٹالنے کے لئے اب سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں۔ ایسی مہم جوئی پر سپریم کورٹ کی لاتعلقی حالات کو مزید خراب کرے گی۔

البتہ زمینی حقائق اس کے برعکس اشارہ کر رہے ہیں۔ آج جو واقعات رونما ہوئے ہیں، ان سے تو یہ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کسی حد تک پسپائی اختیار کر کے جارحانہ حکمت عملی کی بجائے دفاعی پوزیشن لے رہی ہے۔ پارٹی نے عمران خان کی قیادت میں آج الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن پہلے تو عمران خان نے خود اس میں شریک ہونے سے گریز کیا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ مظاہرین ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔ پارٹی کے چند لیڈروں نے الیکشن کمیشن کے دفتر جا کر یادداشت پیش کی اور واپس چلے گئے۔ عمران خان نے عدم اعتماد کے بعد سے اپنی پارٹی کو جس طرح ہائپر کیا ہوا ہے، اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کسی حد تک مصالحانہ رویہ ہے جس میں وفاقی حکومت ساتھ ٹکر اؤ سے بچنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ آج ہی تحریک انصاف نے پہلے جوڈیشل کونسل میں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا لیکن چند ہی گھنٹوں بعد اسے یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا گیا کہ اس میں مزید دلائل شامل کیے جائیں گے۔ تاہم ریفرنس واپس لینے کو بھی تحریک انصاف کی پسپائی سے ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا حکومت کسی انتہائی اقدام سے بچنا چاہتی ہے یا تحریک انصاف اب براہ راست تصادم سے گریز کی پالیسی اختیار کر رہی ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ نے البتہ تحریک انصاف کو ایک قدم پیچھے اٹھانے اور اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی پر مجبور ضرور کیا ہے۔ لگتا ہے عمران خان اور پارٹی اپنے گرد بنے جانے والے قانونی جال کی گرفت محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم حکومتی اتحاد یا تحریک انصاف کسی کو بھی ایک دوسرے کی سیاسی طاقت کے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ موقع ہے کہ فریقین سیاسی فیصلوں کو واپس سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ میں لے کر آئیں اور عدالتوں یا اسٹبلشمنٹ کو ملکی عوام کی تقدیر سے کھیلنے کا موقع نہ دیں۔

آنے والے چند دنوں یا ہفتوں میں رونما ہونے والے حالات میں معلوم ہو سکے گا کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے بدستور مہا یدھ پر آمادہ ہیں یا ملکی معیشت اور اور جمہوری نظام کی بقا کے لئے عقل کے ناخن لے کر مفاہمت اور بقائے باہمی کا کوئی راستہ نکالنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments