کیا کبھی موت کی خبر بھی اچھی خبر بن سکتی ہے؟


اگر آپ کسی ایسی بیماری کا شکار ہوں جو تکلیف دہ بھی ہو اذیت ناک بھی ہو اور لاعلاج بھی ہو اور آپ اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہوں اور آپ کو کوئی ڈاکٹر یا نرس موت کو گلے لگانے میں مدد کر سکتا ہو تو کیا آپ اس ڈاکٹر یا نرس کی خدمات حاصل کریں گے؟

کریں گے تو کیوں اور نہ کریں گے تو کیوں نہیں؟
کیا آپ اسے خود کشی سمجھیں گے یا باعزت موت؟

اور اگر آپ کا کوئی دوست یا رشتہ دار ایسے ڈاکٹر یا نرس کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے تو کیا آپ اس کی معاونت کریں گے یا اسے ایسی موت کو گلے لگانے سے روکیں گے؟


جب ہم موت کو اپنی مرضی سے گلے لگانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو مریض کا دکھ ہے جو اپنی بیماری کی شدت اور اذیت کی وجہ سے اپنی زندگی کو الوداع کہتا ہے تو دوسری طرف اس کے دوست اور رشتہ دار ہوتے ہیں جو اس تکلیف دہ عمل کے چشم دید گواہ بنتے ہیں۔

چند ماہ پیشتر میری ایک ایسی ہی ماں سے اپنے کلینک میں ملاقات ہوئی اور میں نے اسے اپنے تجربے کے بارے میں لکھنے کی درخواست کی تا کہ میں اس کی بہتر مدد کر سکوں۔ میری درخواست پر اس نے مجھے ایک خط لکھا جس کی تلخیص اور ترجمہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو موت کو اپنی مرضی سے گلے لگانے والے اور اس کے کسی عزیز کی آزمائش کا بہتر اندازہ ہو سکے۔


مریضہ کا خط
’ڈیر ڈاکٹر سہیل!

آپ نے میری بیٹی اور اس کی موت کے بارے میں پوچھا ہے۔ میرے دل کا یہ زخم ابھی نیا ہے۔ میں اسے چھوتی ہوں تو ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ میں اس درد کو کم کرنے کے لیے آپ کے پاس آئی ہوں اور میں اس میں بہتری محسوس کر رہی ہوں۔ میرا درد آپ کی مسیحائی سے دھیرے دھیرے کم ہو رہا ہے۔

میری بیٹی کا نام جینیفر تھا لیکن ہم اسے پیار سے جینی کہتے تھے۔ اس نے 25 نومبر 2021 کو اپنی مرضی سے اپنی موت کو گلے لگایا تھا۔

میں جب جینی کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ وہ بچپن سے ایک شرارتی لڑکی تھی۔ وہ بہت باتونی تھی۔ وہ جذباتی طور پر مجھ سے زیادہ اپنے والد کے قریب تھی۔ وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی۔

جن دنوں جینی سکول جاتی تھی ان دنوں میں ملازمت کرتی تھی اور دیر سے گھر آتی تھی۔ اس کے والد گھر سے کام کرتے تھے اس لیے جب جینی سکول سے آتی تھی تو اس کے والد گھر پر ہوتے تھے اور اس کا خیال رکھتے تھے۔

میرے دل کے نازک گوشوں میں جینی کی بہت سی خوش گوار یادیں محفوظ ہیں۔

جب میری طلاق ہوئی تو میں اپنے شوہر سے دور ہو گئی لیکن جینی اپنے والد سے اور زیادہ قریب ہو گئی۔ کچھ عرصہ جینی مجھ سے ناراض رہی۔ وہ مجھ سے بدکلامی کرتی رہی اور پوچھتی رہی کہ میں نے اس کے والد کو کیوں چھوڑا۔ میں خاموش رہتی۔ میں اسے نہیں بتانا چاہتی تھی کہ اس کے والد نے مجھ پر کیا مظالم ڈھائے ہیں کیونکہ میں اس کا اس کے والد کے بارے میں دل برا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

پچھلے سال مرنے سے پہلے جینی نے مجھ سے ماضی کی بدکلامی کی معافی مانگی اور میں نے اسے معاف کر دیا۔ میں نے بھی اس سے معافی مانگی کہ میں نے انجانے میں اس کا دل دکھایا۔ اس نے بھی مجھے معاف کر دیا۔ ہم اس دن کافی دیر تک دل کی باتیں کرتے رہے اور مل کر روتے رہے۔ اس رونے سے ہم دونوں کا دل ہلکا ہو گیا۔

میں یہ خط لکھتے ہوئے بھی رو رہی ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ میرے اندمال میں میری مدد کرے گا۔ میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں اور میری بلی میرے قریب آ کر بیٹھ گئی ہے وہ جانتی ہے کہ میں دکھی ہوں۔ بعض دفعہ جانور انسانوں سے زیادہ حساس اور ہمدرد ہوتے ہیں اور اپنی خاموش محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

اپنے شوہر سے طلاق کے بعد میری ملاقات جم سے ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ہم نے شادی کر لی۔ میری دوسری شادی میری پہلی شادی سے کہیں زیادہ خوشحال اور پرسکون تھی۔

لیکن پھر جم کو بد قسمتی سے پاسکنسن کی بیماری ہو گئی۔ جب بیماری بڑھی تو جم لڑکھڑانے لگا۔ وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ پاتا تھا۔ وہ رات کو واش روم جانے کے لیے اٹھتا تھا تو بیڈروم کے فرش پر گر جاتا تھا۔ وہ بھاری بھرکم انسان تھا۔ اس کا وزن تین سو پونڈ تھا اور میرا وزن صرف ایک سو بیس پونڈ۔ میں اسے اٹھا نہ سکتی تھی۔ کئی دفعہ مجھے ایمبولینس کو بلانا پڑا اور انہوں نے مل کر جم کو فرش سے اٹھا کر بستر پر لٹایا۔

جم کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی اور وہ پچھلے سال فروری میں فوت ہو گیا۔

جم کی وفات کے ایک ہفتے بعد جینی نے مجھے یہ خبر سنائی کہ اسے ہڈیوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ یہ وہی کینسر ہے جس سے کینیڈا کا ہیرو ٹیری فوکس بیمار ہوا تھا اور اس نے کینسر کے علاج کی تحقیق کے لیے کینیڈا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک ٹانگ پر قدم بڑھائے ہوئے لاکھوں ڈالر جمع کیے تھے اور لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا تھا۔

شروع میں ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ جینی کو آرتھرائٹس ہے جو جلد ٹھیک ہو جائے گا لیکن جب درد کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا تو انہوں نے ٹیسٹ کیے اور تشخیص کی کہ اسے ہڈیوں کا کینسر ہے۔

جینی نے تین ہڈیوں کا آپریشن بھی کرایا اور ہم سب چند ہفتوں کے لیے بہت خوش ہوئے کہ علاج کامیاب رہا اور جینی جلد صحتیاب ہو جائے گی لیکن پھر ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری خوشی عارضی ہے۔

ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا کہ جینی کا کینسر اس کے پھیپھڑوں تک پہنچ چکا ہے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ جینی کا کینسر سارے بدن میں پھیل چکا ہے تو ہم سب بہت دکھی ہوئے۔

جینی کا درد بڑھتا گیا۔
وہ سخت تکلیف میں تھی۔ اذیت میں تھی۔
اسے ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔
میں ہر روز اس سے ملنے جاتی۔
ہم مل کر کھانا کھاتے گانے گاتے۔
میں بظاہر ہنستی لیکن دل میں روتی۔

جینی دھیرے دھیرے کمزور ہوتی گئی۔ پھر وہ وقت آیا کہ وہ نہ کچھ کھا سکتی نہ کچھ پی سکتی۔ اس کا وزن کم ہوتا گیا۔ وہ پچھلے سال مئی سے نومبر تک ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی۔

پھر ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس نے زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نے اپنے ڈاکٹر سے درخواست کی ہے کہ وہ اسے موت کو گلے لگانے میں مدد کرے اور اس کے ڈاکٹر نے اس کی درخواست کو قبول کر لیا ہے۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ وہ اگلے دن اپنی مرضی سے اپنی موت سے ہاتھ ملائے گی اور اس کے ساتھ چلی جائے گی۔

جینی کا فیصلہ سننے کے بعد میں ساری رات سو نہ سکی۔

اگلے دن ہسپتال گئی۔ میں نے جینی کے ماتھے کو چوما اسے بتایا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ اس نے بھی اپنی محبت کا اظہار کیا۔

پھر اس کا ڈاکٹر اور نرس آئے۔ انہوں نے جینی سے پوچھا کہ کیا اس نے سوچ سمجھ کر زندگی کا یہ فیصلہ کیا ہے۔ جینی نے اثبات میں جواب دیا۔

انہوں نے جینی کو خاص ادویہ کا خاص ٹیکہ لگایا اور اس نے میرے سامنے اپنی موت کو گلے لگایا۔
میری آنکھوں سے دو آنسو میری ہاتھ پر ٹپکے۔
میں نے سوچا یہ کیسا امتحان ہے کہ ایک ماں کے سامنے اس کی بیٹی اپنی موت کو گلے لگا رہی ہے۔

مجھے اپنی بیٹی کی موت کا دکھ ہے لیکن اس بات کا سکھ بھی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا آخری فیصلہ بڑی بہادری اور دلیری سے کیا۔ میری بیٹی مجھ سے زیادہ بہادر نکلی۔

ڈاکٹر سہیل!
میں شکر گزار ہوں کہ آپ میری مدد کر رہے ہیں اور میرے دکھ کو بامعنی بنا رہے ہیں۔
اب میں مزید کچھ نہیں لکھ سکتی
اب میں اجازت چاہتی ہوں۔
ایک دکھی ماں


جن قارئین اور دوستوں کے لیے یہ کہانی اور یہ قانون عجیب ہے ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ
کینیڈا کی قانون ساز اسمبلی نے 17 جون 2016 کو یہ قانون پاس کیا کہ کینیڈا کا ہر وہ شہری جو
۔ عاقل و بالغ ہے
۔ کسی اذیت ناک بیماری میں مبتلا ہے
۔ اور وہ بیماری لاعلاج ہے

تو وہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو جائے۔ ایسا شہری اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر یا نرس سے درخواست کر سکتا ہے کہ وہ اس کو ایک باعزت موت کو گلے لگانے میں مدد کریں۔ اگر اس کا ڈاکٹر اور نرس اس کی مدد کرتے ہیں تو وہ موت

MAID…MEDICALLY ASSISTED DEATH

کہلاتی ہے۔ کینیڈا کے اس قانون نے کینیڈا کے ڈاکٹروں اور نرسوں کو یہ اجازت دی کہ وہ اپنے دکھی مریضوں کی موت کو آسان کر سکیں۔

کینیڈا کے قانون دانوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس قانون کو دو نام نہ دیں۔
پہلا نام ASSISSTED SUICIDE

کا ہے جو امریکہ کی کئی ریاستوں میں اس وقت استعمال ہوتا ہے جب مریض ڈاکٹر اور نرس کی موجودگی میں زہر کا پیالہ پیتا ہے۔ کینیڈا کے ماہرین جانتے تھے کہ خود کشی کی اصطلاح کے ساتھ ماضی میں گناہ اور جرم کا تصور وابستہ رہا ہے اور اکیسویں صدی میں بھی چند مذہبی لوگ اسے گناہ سمجھتے ہیں اور بعض روایتی ریاستیں اسے غیر قانونی جرم سمجھتی ہیں۔ ان ریاستوں میں خودکشی وہ واحد جرم ہے جس میں ناکامی کی وجہ سے کسی مجرم کو سزا دی جاتی ہے۔

دوسرا نام EUTHANASIA

کا ہے جو یورپ کے بعض ممالک میں اس وقت استعمال ہوتا ہے جب مریض کو اس کا ڈاکٹر یا نرس اس کی آشیرباد کے ساتھ ادویہ کا ٹیکہ لگاتا ہے۔ یوتھانیز یا کی اصطلاح ماضی میں اس ظالمانہ قتل کے لیے بھی استعمال کی گئی تھی جب جسمانی معذوروں اور ذہنی مریضوں کو ان کی مرضی پوچھے بغیر مار دیا جاتا تھا۔

کینیڈا کی حکومت اپنے قانون کو میڈیکلی اسسٹڈ ڈیتھ کا نام دیتی ہے جس میں ناقابل علاج مریض کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مریضی سے موت کو گلے لگائے اور یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ نرس یا ڈاکٹر کی موجودگی میں خودادویہ کا پیالہ پیے یا اپنے ڈاکٹر اور نرس کو یہ اجازت دے کہ وہ اسے ان ادویہ کا انجکشن لگائیں۔

یہ قانون کینیڈا کے شہریوں کی انسانی حقوق کی جدوجہد میں ایک بڑی پیش رفت سمجھا جاتا ہے۔
۔ ۔

نوٹ: جو قارئین اس قانون اور اس کے نفاذ کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ مندرجہ ذیل کتاب پڑھیں

THIS IS ASSISTED DYING BY DR STEFANIE GREEN

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments