ادب عالی اور ادب عامی


کسی فن پارے، خاص کر ناول کا بنیادی وصف اس کی ریڈ ایبلٹی ہوتی ہے۔ یعنی ایک متوسط ذہن کے قاری سے فن پارہ خود کو پڑھوا سکے۔ ایک مدت سے اس تلاش میں تھا کہ کوئی ناول ایسا ملے جو نشست سے چپکا کے رکھ دے۔ جس کی فضا میں جذب ہو کر اس کا حصہ بن جاؤں۔ جو ایسا اسیر کرے کہ جب تک خواندگی مکمل نہ ہو جائے، سوتے جاگتے کا ساتھی ہو۔

اپنی نا اہلی، کم فہمی اور کور عقلی کا اعتراف کرنا مقصود ہے کہ جس کو ادب عالیہ کہا جاتا ہے وہ کم از کم مجھ سے تو نہیں پڑھا جاتا۔ کہانی کسی ناول کا بنیادی جزو ہے جس پر ساری عمارت کھری ہوتی ہے۔ کہانی کو چھوڑ کر آپ جتنا دائیں بائیں نکل سکیں، سیاست، نفسیات، سماجیات اور فلسفہ وغیرہ پر گزوں طویل جملے لکھ سکیں، غیر ضروری تفصیلات میں صفحوں کے صفحے کالے کرسکیں، پورا پورا باب بیانئے کی ایک سطر نہ لکھ کر مکالموں سے بھر سکیں تو جان لیجیے آپ نے اتنا ہی بڑا ادب عالیہ کا شاہ کار تخلیق کیا ہے۔

پتہ نہیں اس طرز کے ناول لکھنے والے فلسفہ، نفسیات یا سیاسیات و سماجیات کی کتاب کیوں نہیں لکھ لیتے! اور اگر مکالمے ہی لکھنے کا چسکا ہے تو ڈرامہ کیوں نہیں لکھتے۔

بالکل ردی ناول بھی نہیں پڑھے جاتے۔ مطلب ڈائجسٹ ناول، مقبول عام ادب۔ کتنے لوگ ہیں ہمارے ہاں جو ساٹھ ستر برس کی زندگی میں سینکڑوں کی تعداد میں ناول اور کہانیاں لکھ گئے۔ وہ تخلیق نہیں فقط مشقت کرتے رہے۔ چلئے مشقت نہ سہی مزدوری کہ لیجیے۔ مزدوری ہو کہ مشقت اس کے نتیجے میں تخلیق بہرحال نہیں ہوتی۔ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ ناول کے بنیادی لوازمات کا خیال رکھ پائیں۔ پرانی داستانوں کی طرح زمان و مکاں اور علت و معلول سے ماورا واقعات گھڑ گھڑ کے صفحات سیاہ کیے جاتے رہے۔

کہانی پڑھنا میرا شوق ہے سو آئے روز فکشن کی کتابیں خریدا کرتا ہوں مگر اسیر کر لینے والا ناول مدت سے نہیں ملا۔ ”آج“ کے تراجم خاصے کی چیز ہوتے ہیں تاہم ریڈیبیلٹی ان میں بھی مناسب حد تک ہوتی ہے۔ اپنے ہاں تو اب ناول لکھا ہی نہیں جا رہا ، جو تھے وہ قبروں میں جا سوئے۔

آج شام صحن میں چارپائی بچھا کے کچھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ ادب عالیہ اور ادب عامیانہ کے بیچ پھنسا ہوئے مجھ ایسے شخص کا یہ المیہ ہے۔ سو اوپر کے کمرے میں گیا اور ذخیرہ کتب میں سے دو پرانے ناول اٹھا لایا۔

جب اول اول ان کو پڑھا تھا تو گرد و پیش کہیں کھو گئے تھے اور گویا انہی ناولوں کا کوئی کردار بن گیا تھا۔

مزے کی بات ہے کہ دونوں ہی مصنفین صحافی+ادیب ہیں۔ جناب قمر اجنالوی اپنے زمانے کے ایک بڑے اخبار روزنامہ مغربی پاکستان کے ایڈیٹر رہے جب کہ جناب شوکت صدیقی روزنامہ انجام اور مساوات کے ایڈیٹر رہے۔

جناب شوکت صدیقی نے عمر بھر میں کل تین ناول لکھے۔ خدا کی بستی، جانگلوس اور چاردیواری۔ خدا کی بستی میں ساٹھ اور ستر کی دہائی کا کراچی، جانگلوس میں آزادی سے پہلے اور فوری بعد کا پنجاب جبکہ چاردیواری میں لکھنؤ کی گم شدہ تہذیب جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔

جناب قمر اجنالوی نے تاریخی ناول زیادہ لکھے۔ جس دور کا منظر نامہ تیار کرتے ہیں، اسے گویا فلما کر قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ چاہ بابل میں انسانی تہذیب کا اولیں گہوارہ بابل شہر آپ کو جیتا جاگتا نظر آئے گا۔ تاریخی کے علاوہ جناب قمر اجنالوی کا ایک چھوٹا سا ناول ”لاڈو“ ہے۔ لاڈو ایک گھوڑی کا نام ہے۔ پنجاب کو paint کرنے میں بلونت سنگھ کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر آپ لاڈو پڑھ پائیں تو آپ کو قمر اجنالوی کا قلم کہیں کہیں بلونت سنگھ سے بڑھا ہوا محسوس ہو گا۔ پنجاب کے دیہی ماحول کو، روایات اور بود و باش کو کیا مہارت سے تصویر کیا ہے۔

بلونت سنگھ ڈکیتی کے مناظر قلم بند کرتے ہوئے گویا فلم چلا دیتے ہیں۔ (اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ بلونت سنگھ ایک زمانے میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا حصہ رہے ہیں ) قمر اجنالوی نے بھی گاؤں پر ایک دھاوے کا منظر ”لاڈو“ کے آخر میں قلم بند کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

لیجیے صاحب! جب نیا کچھ نہیں ملا تو میں چاہ بابل اور خدا کی بستی اٹھا لایا ہوں۔ مدت پہلے پڑھی تھیں۔ موٹا موٹا شاید یاد ہے جزئیات کا تو مزہ لیا جاسکتا ہے نا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments