چوکیل بانڈا: آوارہ بادلوں کی سرزمین


خوبصورتی صرف خوبصورت آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے اور وہ حسن جو آنکھ دیکھتی ہے اس کا احساس، جب تک رگ و پے میں سما نہ جائے وہ آپ کی یاداشت کا حصہ نہیں بنتا۔ خوبصورتی کے اس احساس سے لطف اندوز ہونے کے لئے ناظر کو اس منظر کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ آنکھ اس خاص لمحے میں رنگوں کو ایک مخصوص زاویے سے اکٹھا کر کے دماغ کی تختی پر منتقل کر دیتی ہے، پھر اس منظر کو لے کر ذہن، کئی یادوں کو ان رنگوں میں شامل کرتا ہے اور اس میں سے کئی نت نئے منظر تخلیق کر دیتا ہے۔

رات کی تاریکی، دیو قامت چیڑھ کے درختوں کی قطاریں، فضا میں شام کو ہونے والی بارش کی خنکی، ہم آوارہ مزاجوں کے قدموں کی چاپ اور تیز ہوا کے جھونکوں پر ہر سو پھیلے آوارہ بادل، بس اس خوبصورت رات کے یہی گوڑھے رنگ ہیں جو دن بھر کی مسافت اور اس سے ہونے والی تھکاوٹ کا احساس بھی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ چوکیل بانڈا کی زیارت کے لئے بھوک سے بے تاب مسافر جلد از جلد کسی ایسی جگہ پہنچ جانا چاہتے تھے جہاں قریب پانی کا چشمہ ہو، زمین ہموار ہو۔ شاید ہم ساری رات اس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہی گزار دیتے اگر اس راستے پر ہمیں ایک خضر صورت مقامی نوجوان نہ مل جاتا۔

چوکیل بانڈا کی زیارت کے لئے، ہم پانچ آوارگان فطرت، محمد مبین، قاری فضل کریم، شیراز، عادل اور راقم کا سفر کالام سے دوپہر دو بجے شروع ہونا تھا لیکن نور الہدی شاہین کی روایتی سستی، فضل سبحان کی سماجی و غیر سماجی سرگرمیوں اور قاری فضل کریم کے پند و نصائح، اشیائے خورد و نوش کے خریدنے کی وجہ سے ہم سہ پہر چار بجے کالام سے مانکیال کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں قاری صاحب کی شمولیت تو پیراشوٹر کے طور پر ہوئی کیوں کہ ہمیشہ کی طرح نور الہدی شاہین نے آخری لمحوں میں اپنا پروگرام منسوخ کر کے، ان کو ہماری گوشمالی کے لئے چوکیل بانڈا یاترا میں ہمراہ کر دیا۔

چوکیل بانڈا، پانچ کلومیٹر طویل سرسبز گھاس کا پیالہ نما میدان ہے۔ اس میدان کے کناروں پر مقامی بکروال قبائل نے پتھر اور لکڑی کے عارضی گھر بنائے ہیں۔ دیو قامت پہاڑوں میں گھری چراگاہ کی سیر کے لئے آنے کا بہترین وقت مئی اور جون کا مہینہ ہے کیوں کہ ان دنوں بکروال اپنی بھینسوں، گائے اور بکریوں کے ساتھ اس چراگاہ میں نہیں پہنچے ہوتے۔ ان کی آمد سے پہلے یہ گھاس کا میدان جنت ارضی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ چار سو سبز گھاس پر رنگا رنگ پھول ایسے کھلے ہوتے ہیں کہ پوری چراگاہ ایک پھولوں کی کیاری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

چوکیل بانڈا، کالام سے پچیس کلومیٹر اور بحرین سے چوبیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چوکیل پہنچنے کے لئے مانکیال کے گاؤں سے ایک پتھریلا راستہ سیری گاؤں تک جاتا ہے جہاں پہنچ کر دو سے تین گھنٹے کا پیدل ٹریک کر کے چوکیل بانڈا جا سکتے ہیں۔ سہ پہر چار بجے سے شروع ہونے والے سفر کا پہلا حصہ کالام سے مانکیال تک پہنچنا تھا جہاں سے ہمیں مقامی گائیڈ نے جوائن کرنا تھا۔

فضل سبحان کے سسرالی رشتہ دار یعنی اس کے ہم زلف کی بدولت ہمیں عادل کی خدمات میسر تھیں جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہمارے علاوہ بوجھ کو اٹھا کر ہمارے ساتھ منزل پر پہنچ سکے۔ مانکیال کا کالام سے راستہ پختہ سڑک کے ذریعے اکیس کلو میٹر ہے سوائے ان چار پلوں تک جن کی حالت میں پچھلے آٹھ سال میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔ مانکیال پہنچ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ دس دن پہلے آنے والے پانی کے ریلے سے پتھریلا راستہ مزید خراب ہو گیا ہے اور ہمیں اپنی سواری باد بہاری تبدیل کرنا پڑے گی کیوں کہ فضل سبحان کی سواری میں تاب نہ تھی کہ وہ ان پتھروں کا مقابلہ کر سکے۔ مانکیال سے سیری کے اڈے تک چار ہزار روپے کرایہ طے ہوا اور سارے سامان کو دوسری گاڑی میں شفٹ کر کے مغرب سے تھوڑی دیر پہلے سفر کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔

مانکیال سے سیری گاؤں تک کا فاصلہ دس کلو میٹر ہے اور یہ راستہ فور بائی فور جیپ اور پتھروں کے درمیان مسلسل جنگ کی حالت میں، دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ سیری گاؤں تک بحرین سے ڈاٹسن پر بھی آیا جاسکتا ہے جس کا کرایہ فی آدمی چار سو روپے ہے۔ اس راستے پر بہت سی جگہ پر اگر سامنے سے گاڑی آ جائے تو شاید آپ کی گاڑی کو دو کلو میٹر واپس ایسی جگہ واپس آنا پڑے جہاں سے دونوں گاڑیاں برابر سے گزر سکیں۔ جولائی کے مہینے میں سیری اور بڑھئی گاؤں سے آلو کی فصل کی منڈی ترسیل شروع ہو جاتی ہے تو شام کے وقت آلو سے لدی گاڑیاں نیچے مانکیال کی طرف آ رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے بہتر ہوتا کہ ہم مانکیال سے سیری تک کا سفر دوپہر تک مکمل کر لیتے۔

سیری، بڑئی اور اس سے ملحقہ علاقے میں زیادہ تر گجر برادری کے لوگ آباد ہیں اور ان کی مادری زبان گوجری ہے۔ زیادہ تر افراد سردیوں میں گجرات، منڈی بہا الدین اور اس کے گرد و نواح میں گزارتے ہیں۔ اس علاقے کے لوگ مجموعی طور پر انتہائی پرامن اور مہمان نواز ہیں لیکن ایک حیران کن تبدیلی کی وجہ سے ان کے رویوں میں سیاحوں کے حوالے سے سختی آ رہی ہے۔

رات نو بجے ہمارا قافلہ سیری گاؤں پہنچ گیا تو تھکاوٹ، رات کی تاریکی اور موسم کا چال چلن دیکھ کر سب نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ بجائے کیمپنگ کے، ہم گاؤں کی مسجد میں قیام کر لیتے ہیں۔ ان گنت ندی نالوں کی بدولت پورا گاؤں پن بجلی سے روشن تھا اور مسجد میں بھی روشنی کا بندوبست تھا۔ جیسے ہی ہم مسجد پہنچے تو وہاں سے مقامی افراد باہر نکل رہے تھے ہمیں دیکھ کر ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ ہمارے ہاں فوتگی ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ آپ آگے جنگل میں کیمپ کر لیں مسجد میں نا ٹھہریں۔

اس دوران ہم آپس میں پنجابی میں بات کر رہے تھے کہ مقامی افراد میں سے ایک مولوی صاحب نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں مجھے مخاطب کیا تو میں حیران رہ گیا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے لیکن وہ عرصہ دراز سے گجرات میں رہائش پذیر ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کا لہجہ بھی خالص پنجابی تھا۔ میں نے جب درخواست کی کہ ہم مسافر ہیں اور رات مسجد میں گزارنا چاہتے ہیں تو انہوں نے شرعی دلائل دینا شروع کر دیے کہ بھائی مسجد کا سوائے نماز پڑھنے اور بچوں کو قرآن پڑھانے کے اور استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

میں اور میرے ساتھی سفر کی وجہ سے پہلے ہی تھکے ہوئے تھے اور خاصے بھی بیزار تھے لیکن مولوی صاحب کا خطبہ جاری تھا۔ اسی دوران میں نے مولوی صاحب کو روکتے ہوئے کہا کہ ہم جنگل میں جا کر کیمپ کر لیں گے کیوں کہ گاؤں میں فوتیدگی ہوئی ہے لیکن مجھے آپ کی یہ مسجد کے استعمال کے حوالے سے بات انتہائی غلط محسوس ہوتی ہے۔

میں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے نا صرف غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا بلکہ انہیں مسجد کے اندر اپنی عبادت کا حق بھی دیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں مسافر مسجد میں آتے تو یا تو اصحاب رسول انہیں ساتھ اپنے گھر لے جاتے اور مہمان نوازی کرتے یا ان کا قیام مسجد میں ہی ہوتا۔ اس لئے میں نے ادب سے مولوی صاحب سے گزارش کی کہ آپ دین کو اتنا مشکل اور اپنے آپ کو اتنا تلخ مت بنائیں کہ ہمارے جیسے آپ کے قریب بھی نا پھٹکیں۔ اس سے پہلے کہ مولوی صاحب پھر صفر سے شروع ہوں ہم نے وہاں سے جنگل کا رخ کر لیا۔ بعد میں پتا چلا کہ سیری اور اس سے ملحقہ دوسرے گاؤں تحریک لبیک کے زیر اثر ہیں۔ دن کے اجالے میں ہمیں جگہ جگہ حب رسول ﷺ کے نعرے اور تحریک لبیک کی وال چاکنگ پتھروں پر ہوئی نظر آئی۔

سبحان اور گاڑی والے سے ہماری بات یک طرفہ سفر کی طے تھی سو وہ لوگ ہمیں مسجد کے قریب اتار کر واپس مانکیال روانہ ہو گئے۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ کل یہاں سے مقامی گاڑی میں واپس مانکیال تک چلے جائیں گے اور وہاں سے پھر کالام واپسی اپنی گاڑی پر ہو جائے گی۔

رات کے اندھیرے میں سر پر ٹارچ باندھے ہم لوگوں نے جنگل کے رخ کیا تو راستے میں ہمیں ایک خضر صورت مقامی لڑکا مل گیا جس نے کہا کہ میرے ساتھ آ جائیں میں آپ کو کیمپنگ کے لئے مناسب جگہ پر پہنچا دیتا ہوں۔

چوکیل بانڈا جانے والے مرکزی راستے سے پندرہ منٹ کی دوری پر دائیں جانب ایک کھلا میدان ہے جس کے کنارے پر ایک اور مسجد ہے۔ میرا خیال تھا کہ ہم شاید اس میدان میں کیمپ کریں لیکن اس لڑکے نے ہمیں تھوڑا آگے لے جا کر اترائی میں ایک چھوٹا میدان دکھایا جس کے ساتھ ہی ایک خوبصورت ندی بھی بہہ رہی تھی۔

اس نوجوان نے اترائی میں ہموار سرسبز میدان کا انتخاب شاید اس لئے بھی کیا کہ ہم رات کو سرد ہوا کی کاٹ سے محفوظ رہ سکیں۔ جب اس جگہ کا جائزہ لیا گیا تو ہمیں آگ کا الاؤ روشن کرنے کا نشان مل گیا۔ وہاں ایک مردہ درخت کا تنا پڑا تھا اور اردگرد راکھ بھی بکھری ہوئی تھی۔ درختوں کے جھنڈ کے قریب قدرتی دیوار سی تھی اور وہاں پرکھانا پکانے کے لئے چولہا بنا ہوا تھا۔

قاری فضل کریم صاحب بضد تھے کہ چولہے کے قریب ہی خیمے لگا دیے جائیں۔ ہم چاروں نے ان سے درخواست کی کہ یہ پیراشوٹ کے بنے خیمے، مثل پروانہ ہیں صرف ایک چنگاری، ہوا کے دوش پر اڑان بھرے گی اور ان کو خاکستر کر دے گی۔ انہوں نے ہماری دلیل مان لی اور آگ سے پندرہ فٹ دور خیمے لگانے کی اجازت دے دی۔

ہم نے دوران سفر مانکیال میں تندور والے سے دگنا پیڑے والی یعنی ڈبل خمیری روٹی لگوانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ یہ روٹی کل دوپہر تک نرم رہے اور ہم کم از کم اسے بغیر مشقت کے کھا سکیں۔ قاری صاحب نے مرغی کے گوشت کو صاف کرنے کے بعد دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ ہنڈیا پر چڑھا دیا اور دوسرے حصے کو مصالحے لگا کر کوئلوں پر رکھ دیا گیا۔

کوئلوں کی ہلکی آنچ پر جب مرغی کی بوٹیاں خوشبو دینا شروع ہوئیں تو دوسری جانب ہنڈیا میں سالن کا مصالحہ بھن چکا تھا۔ مبین کے سگھڑ ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ کالام میں اشیائے خورد و نوش لیتے وقت کوئلہ زبردستی خرید لیا کہ کام آئے گا۔ اس بات کی حکمت مجھے تب سمجھ آئی جب اسی کوئلے پر دو دفعہ باربی کیو کیا گیا۔ چیڑھ کی لکڑی کا کوئلہ جلدی راکھ ہو جاتا ہے اور کیمپنگ کے دوران اکثر ہم نے کچا باربی کیو صرف اس غلطی کی وجہ سے کھایا تھا۔

کھانا پکانے کے دوران مبین اور شیراز نے مل کر دونوں خیمے نا صرف لگا دیے بلکہ تمام سامان سمیٹ کر ان خیموں میں پہنچا دیا کہ بادلوں کو گرجنے سے فرصت مل تو برسنا شروع کر دیں گے۔ سر پر باندھنے والی ٹارچ کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ کھانا پکاتے ہوئے ہمیں صرف قاری صاحب کی روشن پیشانی پر ہی انحصار نہ کرنا پڑا۔ ٹارچ کی روشنی ٹھیک ہنڈیا پر پڑ رہی تھی

ایک گھنٹے میں کھانا پک کر تیار ہو گیا اور مرغی کا گوشت منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ قاری صاحب نے مردہ درخت کے تنے کو اپنے چاقو سے چھیل کر کھردرا کیا اور پتھر سے کچھ لکڑیاں توڑ کر اکٹھی کر لیں۔ تھوڑی دیر میں آگ کا الاؤ روشن ہو گیا جس کے ارد گرد ہم بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابھی بارش شروع ہو گئی تو ہمارے خیمے ہمیں اس سے محفوظ رکھ سکیں گے یا نہیں۔

گزشتہ شب کی بے آرامی، دن بھر کا سفر، راستے کی دشواری اور خمار گندم تھا یا خاموش تاریک رات کا سکون کہ آنکھیں زبردستی بند ہونا شروع ہو گئیں۔ نیند کے عالم میں رات کتنے بادل ہمارے ان خیموں پر اپنے مشکیزے انڈیلتے رہے کچھ خبر نہیں، کتنا پانی خیمے کے اندر پہنچا کچھ اندازہ نہیں البتہ صبح قاری صاحب سے پتا چلا کہ رات خیموں میں پانی بد مست اونٹ کی طرح گھس آیا تھا اور وہ اسے نکیل ڈالنے کی کوشش میں رات بھر سوئے نہیں۔

دوری راستے کی نہیں دل کی ہوتی ہے۔ جب دل فاصلہ طے کرنے پر تل جائے تو ہزاروں میل ایک لمحے میں طے ہو جاتے ہیں۔ چوکیل کے حسن میں مبتلا مسافر کو جب رات سیری کے جنگل میں تیز بارش آن لے تو اس کی صبح کیسی حسین ہو جاتی ہے اس کی کہانی پھر سہی۔

سیری گاؤں کا فضائی نظارہ 
سیری گاؤں کا ایک فضائی نظارہ 
سیری گاؤں کا فضائی نظارہ 
سیری میں بون فائر
سیری میں بون فائر
سیری میں خیمے
چوکیل بانڈا
چوکیل بانڈا
سیری گاؤں کے راستے میں
سیری گاؤں
سیری گاؤں میں کیمپنگ کی جگہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments