موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیاتی انصاف کے تقاضے


اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ملکوں کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں دنیا کی ان ترقی پذیر اقوام کا حصہ نہ ہونے برابر ہے۔ مثال کے طور پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں براعظم افریقہ کا حصہ صرف 4 فیصد ہے ٬ جبکہ اس براعظم کے مختلف ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے طوالت پانے والے شدید قحط کی وجہ سے لاکھوں بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے ممالک اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بپھری ہوئی مون سون بارشوں کے غیض و غصب کا سامنا کر رہے ہیں۔

اگر ہم صرف اپنے ملک کی بات کریں تو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ اس وقت بھی جنوبی پنجاب بلوچستان اور خیبرپختون خواہ کے کئی پسماندہ علاقوں کے لوگ غیر معمولی بارشوں اور تباہ کن سیلاب کی زد میں ہیں۔ سندھ سمیت ملک کے کئی علاقوں کے کسانوں کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق اس سال جولائی میں ملک میں ہونے والی بارشیں معمول سے 180 فیصد زیادہ تھیں۔ جبکہ سندھ میں 308 فیصد اور بلوچستان میں معمول سے 450 فیصد زیادہ بارشیں رکارڈ کی گئیں

اس تناظر میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ آخر دنیا کے ان پسماندہ علاقوں کے لوگوں کا کیا قصور ہے جن کے بچے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں برپا ہونے والی قدرتی آفات کی وجہ سے یا تو بھوک اور میل نیوٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر ان کی کتابیں سیلابوں میں بہہ جاتی ہیں حالانکہ ابھی تو ان علاقوں تک صنعتی انقلاب کے ثمرات بھی پوری طرح نہیں پہنچے ہیں جو کہ اس ماحولیاتی بحران کا سبب بنا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے سے ماحولیاتی انصاف کی اصطلاح موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والے عالمی مباحثے کا باقاعدہ حصہ بنی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امیر ممالک اس مسئلے کو پیدا کرنے کے حوالے سے اپنی زیادہ حصہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف تیسری دنیا کے قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کی مدد کریں بلکہ وہ ترقی پذیر ملکوں کی مدد بھی کریں تاکہ وہ اس بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیاری کرسکیں۔

ماحولیاتی انصاف کا تصور 1970 اور 80 کی دہائیوں سے ہی منظر عام پر آنا شروع ہو گیا تھا اور پھر رابرٹ بلارڈ جیسے سماجی محقق اپنی تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ماحولیاتی مسائل معاشرے کے پسماندہ طبقات کو زیادہ شدت کے ساتھ متاثر کرتے ہیں اور ماحولیاتی نا انصافی کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں دنیا بھر میں ماحولیاتی انصاف کے لئے مختلف تحریکوں نے جنم لیا ہے جن کا ماننا ہے کہ ماحولیاتی بحران دنیا کے کچھ ممالک خاص طور پر دنیا کے جنوبی حصے کو تباہ کن انداز میں متاثر کر رہا ہے اس لیے اس مسئلے کے حل کے حوالے سے ہونے والے عالمی معاہدوں اور اقدامات میں دنیا کے ان غریب لوگوں کی داد رسی ضرور ہونی چاہیے جو اس بحران کے نتیجے میں بے قصور مارے جا رہے ہیں اور دنیا کے امیر لوگوں کی پر تعیش زندگی کی قیمت قحط، سیلاب٬ سمندری طوفان اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑی دیگر قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے climate reparation یا ماحولیاتی معاوضے کا تصور بھی پیش کیا جا رہا ہے جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتی ترقی اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں زیادہ حصہ داری کی بنیاد پر دنیا کے غریب ملکوں کے قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کو ماحولیاتی معاوضہ ادا کریں۔ امیر ممالک اور امیر لوگ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اپنا روزگار اور گھر کھونے والے لوگوں کی دیکھ بھال کریں اور ان ملکوں میں قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کی بحالی کی ذمہ داری بھی لیں۔

ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے حال ہیں میں ہونے والی ایک پیش رفت اقوام متحدہ کی وہ قرار داد بھی ہے جس کے تحت صاف اور صحتمند ماحول کی فراہمی کو ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں جنرل اسمبلی نے موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کو انسانیت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے

قرارداد سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ممبر ممالک اپنے اپنے آئین میں صاف اور صحتمند ماحول کو بنیادی انسانی حق قرار دینے کے حوالے سے قانون سازی کریں گے اور ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے حوالے سے اقدامات کریں گے

اس حوالے سے ماحولیاتی انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والوں کارکنوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک امیر ممالک گرین ہاؤس گیسز کی اخراج اور دنیا کا درجہ حرارت بڑھانے میں اپنی تاریخی ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے کاربان سے پاک معیشت کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔

ان کارکنوں کے مطابق امیر ملکوں کی ماحولیاتی پالیسیاں صرف گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی تک محدود نہیں رہنی چاہئیں بلکہ ان ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے انسانی حقوق اور سماجی نا انصافی کے معاملات کا سدباب بھی کریں۔ امیر ملکوں اور کارپوریشنز نے صنعتی سرگرمیوں سے جو دولت جمع کی ہے اس کا ایک حصہ وہ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں متاثر ہونے والے غریب ملکوں کی فلاح اور بہبود پر خرچ کریں اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر قدیم باشندوں عورتوں اور دیگر کمزور طبقات پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی ماحولیاتی انصاف کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس تناظر میں اگر موجودہ صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو اس وقت افریقہ کے قحط متاثرین سے لے کر بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین دنیا کے امیر ملکوں اور حکومتوں سے انصاف کے متقاضی ہیں جن کا سب کچھ اس ماحولیاتی بحران کی نذر ہو گیا ہے بلکہ میرے خیال سے ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پاکستان جیسے ممالک حکومتی سطح پر بھی یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ عالمی برادری اس بحران سے مقابلے کے لیے انہیں اکیلا نہ چھوڑے خاص طور پر امیر ممالک اپنی تاریخی ذمہ داری نبھائیں تا کہ ماحولیاتی انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments