نوجوان، مسائل اور امکانات


1985 کو اقوام متحدہ نے نوجوانوں کے عالمی دن کا اعلان کیا جس کی وجہ سے دنیا کے ممالک کی توجہ نوجوانوں کے اس کردار کی طرف مبذول ہوئی جو وہ کسی ملک کی ترقی اور امن کے لیے ادا کر سکتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں کہ جن کے تصورات، خیالات اور توانائیاں معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

آج کا نوجوان اپنے معاشرے میں منصفانہ ترقی کے مواقع چاہتا ہے۔ اسے جو تعلیم، صحت، روزگار اور سماجی نا انصافی کے کثیر جہتی مسائل درپیش ہیں ان کے حل کی ضرورت وہ آج پہلے سے کہیں زیاد محسوس کرتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ایک مثبت قوت ثابت ہو سکتے ہیں اگر انہیں وہ علم اور مواقع فراہم کر دیے جائیں جو ان کے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہیں۔

اگر ہم پائیدار ترقی کے عالمی اہداف 2030 کو دیکھیں تو بلا شبہ نوجوانوں کو ان اہداف کے حصول کے مشعل بردار کہہ سکتے ہیں کیونکہ ترقی کے اس ایجنڈے کے وہ محض فائدہ کنندہ نہیں ہیں بلکہ وہ اس کے معمار بھی ہیں، برابر کے شراکت دار اور اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اگرچہ پائیدار ترقی کے تمام اہداف نوجوانوں کی ترقی کے لیے اہم ہیں مگر صحت، تعلیم اور روزگار کے اہداف خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

پائیدار ترقی کا عالمی ہدف 3 اچھی صحت پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بیماریوں اور رویوں کا شکار ہوتی ہے جو ان کی نشوونما اور ان کے پورے پوٹینشل کے مطابق ترقی کرنے کی صلاحیت کو روکتے ہیں۔ ان میں تمباکو نوشی، الکحل اور منشیات کا استعمال، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، پر تشدد رویے، غیر ضروری خطرہ مول لینے والی سرگرمیاں، فحش بینی اور غیرمحفوظ جنسی عمل شامل ہیں۔

تعلیم ہر نوجوان کا بنیادی حق ہے۔ پائیدار ترقی کا ہدف 4 بلا تفریق سب کے لیے یکساں معیاری تعلیم اور زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کا مطالبہ کرتا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں تعلیم کے اس بنیادی حق کے حصول میں خاص طور پر غریب ممالک میں بہت زیادہ نا انصافی پائی جاتی ہے۔ معیاری پرائمری اور ثانوی تعلیم کا حق دیے بغیر بہت سارے دوسرے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔

پائیدار ترقی کا ہدف 8 باعزت روزگار کا مطالبہ کرتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے بے روزگاری اور کام کرنے کے انتہائی ناگفتہ بہ حالات پریشانی کا سبب ہیں۔ نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کے امکانات بڑی عمر کے لوگوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں۔ بہت سے نوجوان ایسے غیر رسمی پیشوں کے لیے کام کرنے پر مجبور ہیں جن کی اجرت انتہائی کم اور جن کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ باعزت روزگار کے حصول کا مسئلہ ان نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ پیچیدہ ہے جن کا تعلق کمزور اور پسماندہ طبقے سے ہے یا وہ جو معذور ہیں، خواجہ سرا ہیں یا جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو آفت زدہ ہیں۔

نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے پاس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے۔ 68 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر کی ہے اور تقریباً 27 فیصد 15 سے 29 سال کی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں سے 30 فیصد ناخواندہ ہیں۔ اسی طرح ہر سال 40 لاکھ افرادی قوت میں داخل ہونے والے نوجوانوں میں سے صرف 39 فیصد ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

دنیا میں اس وقت روزگار کے نت نئے شعبے متعارف ہو رہے ہیں مگر ان شعبوں میں روزگار حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی مہارتوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں اپنے نوجوانوں کو موجودہ دنیا کے لیے تیار کرنا ہے تو انہیں تعلیم، ہنر کی تربیت اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔

صحت، تعلیم، ہنر کی تربیت اور روزگار میں سرکاری اور نجی شعبے کی سرپرستی ہمارے ملک کے لیے ایک نفع بخش سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ یونیسف کی ایک مطالعاتی رپورٹ بتاتی ہے کہ اگر تعلیم پر 10 فیصد زیادہ بجٹ خرچ کیا جائے تو اس سے جی ڈی پی میں سالانہ ایک فیصد اضافہ ہو گا۔ اسی طرح تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت میں سرمایہ کاری کرنے سے پیداواری صلاحیت اور روزگار کے امکانات میں 7 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی آبادی میں اس وقت دو فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے 40 لاکھ نوجوان ہر سال ووٹ ڈالنے کی عمر میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ریاست کی سطح پر فیصلہ سازی میں نوجوانوں کا عمل دخل اب فیصلہ کن ہو گا۔

نوجوانوں کی بہبود، شراکت اور انہیں با اختیار بنانا ترقی اور عالمی امن کی کلید ہے۔ اس کے حصول کے لیے نوجوانوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مضبوط اور جامع شراکت داری کی ضرورت ہے تاکہ بے روزگاری، تعلیم، صحت، سیاسی استحکام اور امن کے حوالے سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔

 

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments