انتہا جس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل


اسلامی مہینوں کی برکات و عبادات اپنی اپنی ہیں۔ مگر ان عبادات کو مکمل طور پر ہم ادا کرنا تو دور کی بات، اسلام جو بنی نوع انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں حقوق اللہ جل جلالہ، حقوق العباد، اہل و عیال کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق بلکہ جانوروں تک کے حقوق بتائے گئے ہیں، بظاہر ان حقوق و فرائض کی بجا آوری مشکل معلوم ہوتی ہے مگر ہم آقا نامدار خاتم النبیین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو تکالیف کا سامنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتہائی صبرو تحمل سے کیا اور ہمارے لیے ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔

بلکہ اللہ کی کبریائی کا پیغام پہنچانے والے ہر ہر نبی ع نے ایسی ایسی صعوبتیں برداشت کیں جن میں سے ایک بھی ہماری زندگی میں اجائے تو ہمارے لیے اس کا ایک جز بھی برداشت کرنا مشکل ہے۔ یعنی عزتیں بڑی تھیں تو مصیبتیں بھی بڑی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر جب بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو اللہ کی رضا کی خاطر جدائی کے اس امتحان سے گزرنے کے لئے بی بی حاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو صفہ و مروہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا۔

آج کے دور کے لیے بظاہر یہ عمل کسی کی سختی تو ہو سکتی ہے کوئی محبت کا عمل نہ کہلائے گا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا مقصد تو اللہ کی رضا تھا اور اپنے خالق و مالک سے محبت و عشق کا امتحان تھا۔ ادھر جناب بی بی حاجرہ علیہ السلام کا امتحان مزید مشکل ہو گیا جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس کی شدت بڑھی اور دور دور تک پانی نہ تھا پانی کی تلاش کی خاطر جناب حاجرہ علیہ السلام نے صفہ و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑیں مگر پانی نہ ملا آج بھی حج کی سعادت حاصل کرنے والے جناب حاجرہ علیہ السلام کی پیروی میں سعی کرتے ہیں جس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا جب پانی کہیں نہ ملا تو اس کوشش کے انعام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑھیوں کے رگڑنے سے پانی کا چشمہ پھوٹا اور زم زم کا یہ چشمہ آج بھی جاری و ساری ہے ایک طویل مدت سے یہ رواں ہے اور اس میں کوئے کمی نہیں آئی۔

پھر حضرت اسمعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی معاونت میں اللہ کے گھر کی تعمیر فرمائی آج اس گھر کا حج کرنا ہر مسلمان کے لئے اشتیاق کا باعث ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کے دور میں دعوت حق کی خاطر نمرود کے ظلم کا نشانہ بننا پڑا جب آپ کو اس ظالم نے بھڑکتی آگ کے بلند شعلوں میں ڈالا تو آگ گلزار ہو گئی آگ کو دیکھ کر آپ کے ایمان میں رتی برابر کمی نہ آئی اور آپ نے نمرود کو حیران کر دیا۔

اسلامی سال کے آخری ماہ کی دس تاریخ کو عیدالاضحٰی عقیدت و احترام سے ملت اسلامیہ قربانی جس یاد میں کرتے ہیں۔ وہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے اور اللہ کی راہ میں اپنی ہردلعزیز کی قربانی دینے کے خواب سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو آگاہ کیا کہ میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کر رہا ہوں فرزند نے والد محترم سے کہا میں اس کے لیے تیار ہوں آپ مجھے صابر و شاکر پائیں گے۔ اور ہم آج ان کی یاد میں عید قرباں مناتے ہیں مگر ہم اپنی انا، ضد، تکبر، کنا، بغض، حسد کو قربان نہیں کرتے بلکہ صرف جانور کو ہی قربان کرتے ہیں اپنے اندر کے جانور کو بچائے رکھتے ہیں۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری چلی تو مالک کی قبولیت کی سند دنبہ آ گیا اور چھری اس پر چل گئی جب ابراہیم علیہ السلام نے پٹی کھولی تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ ذبح ہوا اور قربانی قبول ہوئی مگر شاید مکمل نہ ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کی تکمیل ابھی باقی رکھی۔ اس قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین نبی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتخاب کیا جب آپ ص نے نبوت کا بظاہر اعلان کیا تو اہل مکہ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ جو آپ ص کو صادق و امین مانتے تھے

مگر رحمت اللعالمین کو قسم قسم کی صعوبتیں دینے میں کوئی کثر نہ چھوڑی۔ آپ کے نواسے حسین علیہ السلام نے ان صعوبتوں کا مقابلہ جاری رکھا۔ 28 رجب المرجب 60 ہجری کو حج کے قصد سے نانا کا مدینہ چھوڑا اپ کو معلوم تھا کہ اب وہ وقت دور نہیں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی تکمیل ہونے جا رہی ہے 8 ذوالحج کو جب حاجیوں کے احرام میں پوشیدہ تلواروں کو دیکھا تو حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور خانہ خدا چھوڑنے کا قصد کیا تاکہ یہ امن کی جگہ جنگ کا میدان نہ بنے غرض اپنے مقام شہادت کا رخ کیا ادھر 9 ذوالحج کو سفیر امام عالی مقام حضرت مسلم بن عقیل کو اور 90 سال کے صحابی رسول ص حضرت ہانی بن عروہ کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

نعمان بن بشیر کی جگہ ابن زیاد نے کوفے کی گورنری سنبھالی اور ابن زیاد کی فوج نے نہ صرف حضرت مسلم بن عقیل کو شہید کیا بلکہ حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا اس لعین نے سزا دی اور کوفہ کے دار الامارہ کی چھت سے گرا دیا گیا اور کربلا کی قربانی کے پہلے شہید ہوئے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قافلہ اپنی اولاد اصحاب اور خواتین کے ساتھ کربلا وارد ہوا محرم 61 ہجری میں 7 محرم سے فوج یزید نے پانی بند کر دیا۔

حضرت اسماعیل کی پیاس اپنی جگہ اور اولاد، اصحاب امام کی پیاس اپنی جگہ۔ سال کے پہلے مہینے 10 محرم کا دن آیا اور پیاسے شہدا کی قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سارا دن شہادتوں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ وقت آ گیا جس وقت کے لیے کائنات کے رحمت اللعالمین آقا نے آگاہ کیا تھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی 10 ذوالحج کی قربانی کی تکمیل 10 محرم کو اپنے نانا کے دین کی بقا کی خاطر نفس مطمئنہ امام عالی مقام نے 72 قربانیاں دے کر اور خود اللہ رب العزت کے حضور قربان ہو کر اپنے نانا کے دین اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی تکمیل فرما دی۔ اسلام کو تا قیامت قائم فرما دیا کیونکہ

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
انتہا جس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments