ایک نایاب کتاب سے اچانک ملاقات


اپنی کتابوں کی الماری کی صفائی کرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک کتاب پر پڑی، جو اخبار کے کور میں لپٹی ہوئی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی۔ میری کوئی کتاب اس طرح سے اخبار کے سات پردوں میں چھپی ہوئی نہیں تھی، یہ کون سی کتاب ہے، جس کو میں نے اتنا چھپا کے رکھا ہے؟ کتاب کے چہرے سے نقاب اٹھایا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی، یہ کتاب تو میں برسوں سے ڈھونڈ رہا تھا! کراچی کی اردو بازار سے لے کر سنڈے کے دن ریگل چوک اور فریئر ہال پے لگنے والے بازاروں میں ڈھونڈتا رہا، مگر مجھے یہ کتاب نہیں ملی۔

آج کل اکثر نایاب اور اچھی کتاب فٹ پاتھوں پر لگنے والی سنڈے بازاروں میں ہی ملتی ہے۔ یہ سعید ابراہیم صاحب کی نایاب کتاب ”سیکس اور سماج“ میرے گھر میں موجود تھی، میں نے کتاب اٹھائی، اس کے سات پردے ہٹانے کے بعد اس کو پڑھنا شروع کیا۔ صبح پانچ بجے تک کتاب کا ایک حصہ مکمل کر لیا، دوسرے دن سنڈے تھا، شام تک کتاب کے پونے تین سو صفحے پڑھ کر کتاب مکمل کرلی۔ برسوں بعد کسی کتاب نے روح کی تھکن اتار دی تھی۔ کتاب میں سعید ابراہیم صاحب انسان ذات کی پوری تاریخ میں عورت کی غلامی، اس کے دکھ، اوائلی انسان سے آج تک کے ماڈرن انسان تک، عورت پہ کیا کیا گزری ہے، عورت نے آزادی سے غلامی تک کا سفر کیسے طے کیا، ملکیت، طاقت، مذہب اور اس کو اس کی منزل پر کیسے پہنچایا ہے، اس کا مکمل جائزہ لیا گیا ہے۔

”سیکس اور سماج“ نامی اس کتاب میں مکمل تاریخی، سماجی، معاشی اور مذہبی حوالوں سے دلائل دیے گئے ہیں۔ میں ایک جملے میں اگر تبصرہ کروں کہ پہلی عورت حوا سے لے کر اس بلاگ کے پبلش ہونے تک پیدا ہونے والی ہر عورت کی ایک مکمل ایف آئی آر ہے۔ ایک دستاویزی تحقیق ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہر عورت اگر اپنی روداد پڑھنا اور سمجھنا چاہتی ہے تو وہ سعید ابراہیم کی یہ کتاب ”سیکس اور سماج“ لازمی پڑھے، اس کا مطالعہ لازمی کرے، کتاب کے اختتام پر مجھے بائیں بازو کے مشہور ترقی پسند دانشور رسول بخش پلیجو کے وہ الفاظ یاد آ گئے جو اکثر اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے، پلیجو کہتا تھا کہ: “کتابوں کو اجازت دو کہ وہ آپ کو سکھائیں کہ، کائنات میں کیسے جیا جائے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments