سوات اور دیر میں طالبان کا دوبارہ ظہور


وادیٔ سوات 2006 ء سے 2009 ء کے آخری فوجی آپریشن ”راہ راست“ تک شدید بد امنی اور مذہبی شدت پسندی کی شکار رہی تھی۔ اس کے بعد بھی سوات کی اہم شخصیات اور امن کمیٹی کے اراکین ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے زندگیوں سے محروم کیے جاتے رہے۔ علاقے کے مکینوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ جگہ جگہ سیکیورٹی چیک پوسٹوں اور سرچ اور کلیئر آپریشنوں کا رہا۔ چیک پوسٹوں پر ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں قطار اندر قطار کھڑی کی جاتیں اور تلاشی کی آڑ میں عام لوگوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھا جاتا۔ اس کے علاوہ سرچ آپریشن کے نام پر گھروں کی تلاشی کے ذریعے چادر اور چاردیواری اور پختون روایات کی حرمت پامال کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ اہل سوات قیام امن کے نام پر سیکیورٹی اداروں کا غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک برداشت کرنے پر مجبور تھے۔

سوات میں قیام امن کے بعد صورت حال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب 3 فروری 2018 ء کو تحصیل کبل میں ایک مبینہ خود کش حملہ میں 11 سیکیورٹی اہل کار جاں بہ حق اور 13 زخمی ہو گئے۔ یہ دھماکہ آرمی کے ایک نہایت محفوظ مقام پر ہوا تھا جس کے بعد اہل سوات کے لئے ایک نئی آزمائش شروع ہو گئی۔ پہلے سے موجود چیک پوسٹوں میں اضافہ کیا گیا اور عوام کے ساتھ سیکیورٹی اہل کاروں کا رویہ بے حد جارحانہ ہو گیا۔ ان سخت پابندیوں کا اثر ہسپتال لے جانے والے بیمار افراد پر بھی پڑنے لگا۔

یوں ایک دن ہسپتال لے جانے والا ایک بیمار بچہ خوازہ خیلہ کے چیک پوسٹ پر بروقت ہسپتال نہ پہنچانے کی وجہ سے جاں بہ حق ہوا تو اس سے عوام میں سخت اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے سوات میں موجود چیک پوسٹوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران ”پختون تحفظ موومنٹ“ کے رہنما منظور پشتین نے بھی سوات کا دورہ کیا اور وہاں پہ ایک بڑا جلسۂ عام منعقد کیا گیا جس میں علاقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور سیکیورٹی اداروں کے نامناسب اور جارحانہ رویے کے خلاف احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں سوات میں مقیم فوجی حکام نے عوام کے غیرمعمولی مشتعل موڈ کو دیکھتے ہوئے بہت سی چیک پوسٹوں کا فوری خاتمہ کیا اور جن چیک پوسٹوں کی موجودگی وہ ناگزیر سمجھتے تھے، ان میں عام لوگوں کے ساتھ سیکیورٹی اہل کاروں کا رویہ یک دم نرم بلکہ دوستانہ ہو گیا۔ چیک پوسٹوں پر عوام کے لئے پینے کے پانی اور مشروبات تک کا اہتمام کیا گیا۔ یوں سوات کے لوگوں کو ایک طویل آزمائش کے بعد غیر ضروری چیک پوسٹوں اور سیکیورٹی اہل کاروں کے نامناسب رویے سے نجات مل گئی۔

سوات میں طالبانائزیشن کو تخلیق کرنے اور اسے پورے علاقے میں پھیلانے کے حوالے سے سوات بھر میں یہ خدشات عام تھے اور ہیں کہ وادیٔ سوات میں مذہبی شدت پسندی پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے میں ریاستی پالیسیوں کا ہاتھ تھا ورنہ سوات کے لوگ نہایت پرامن اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ 1969 ء سے تک سوات کی حیثیت ایک علاحدہ ریاست کی تھی جس کے حکم رانوں نے قرب و جوار کی دیگر قبائلی ریاستوں کے مقابلے میں مثالی امن و امان قائم کر رکھا تھا اور سوات کے ہر شعبے کو ترقی دی تھی۔

اس وقت ریاستی حکم رانوں نے اپنے عوام کی باقاعدہ اخلاقی اور سماجی تربیت بھی کی تھی اور اس تربیت کا نتیجہ تھا کہ اہل سوات نہایت شائستہ، مہمان نواز، بردبار اور امن پسند تھے لیکن جب ریاست سوات 28 جولائی 1969 ء میں ایک ضلع کی حیثیت سے پاکستان میں مدغم ہوئی تو پاکستان کی روایتی بیوروکریسی اور قوانین نے لوگوں میں احساس محرومی اور بے چینی کو جنم دیا جس کے نتائج اہل سوات کو بعد ازاں مذہبی شدت پسندی اور طالبانائزیشن کی صورت میں بھگتنے پڑے۔ بہرحال یہ ایک طویل کہانی ہے جسے کسی دوسرے موقع کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس ضمنی تفصیل کا مقصد اپنے قارئین کو سوات کی سابقہ صورت حال سے آگاہ کرنا تھا جس کے تسلسل میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر طالبان کی علاقے میں آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

چھ اگست کو تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی خان پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ان کے بھائی اور بھتیجے سمیت چار افراد ہلاک جب کہ لیاقت علی خان سمیت چار افراد زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ ان پر اس وقت کیا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں اپنے گھر ضلع لوئر دیر کی تحصیل میدان کے علاقے لال قلعہ جا رہے تھے۔ ’لال قلعہ‘ وہ علاقہ ہے جو (کالعدم) ”تحریک نفاذ شریعت محمدی“ کے امیر مولانا صوفی محمد کی جنم بھومی ہے اور جہاں انھوں نے 18 جولائی 1989 ء میں اس تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ ملک لیاقت علی پر نامعلوم افراد کے حملے سے کچھ عرصہ قبل اس علاقے میں مذہبی شدت پسندوں کی سرگرمیاں میڈیا میں رپورٹ کی گئی تھیں جس کے تحت وہ عام لوگوں سے چندہ اکٹھا کر رہے تھے۔

دوسرا واقعہ آٹھ اگست کو سوات میں اس وقت پیش آیا جب مٹہ کے نواح گٹ پیوچار کے پہاڑوں میں طالبان نمودار ہو گئے اور ان کے خلاف پولیس ایکشن کے دوران انھوں نے مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی پیر سید، سوات میں مقیم 37 اے بٹالین سے تعلق رکھنے والے میجر احسن اور اسی بٹالین سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے فوجی اہل کار رؤف کو یرغمال بنا لیا۔ مبینہ طالبان نے ان تینوں سیکیورٹی اہل کاروں کی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں وہ ان تینوں سے سوالات کر رہے ہیں۔

دونوں فوجی اہل کاروں کے ہاتھ پیچھے سے باندھ دیے گئے ہیں جب کہ ڈی ایس پی زخمی حالت میں زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ فوجی اہل کاروں کے چہروں پر کوئی خوف نظر نہیں آ رہا ہے اور وہ نہایت مطمئن اور پرسکون انداز میں طالبان کو جواب دے رہے ہیں۔ مقامی طور پر جرگے کے بعد طالبان نے تینوں اہل کاروں کو رہا کر دیا تھا۔ واضح رہے مٹہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلا محمود خان کا آبائی علاقہ ہے۔ جب کہ گٹ پیوچار وہ علاقہ ہے جو سوات میں طالبان کی سابقہ سرگرمیوں کا مرکز تھا اور اس پراسرار علاقہ میں مبینہ طور پر سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تیار کیے جانے والے مجاہدین کو تربیت دی جاتی تھی۔

اس وقت قبائلی ضلع وزیرستان سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں پیر کی رات فوجی قافلے پر ایک خود کش حملے میں چار سیکیورٹی اہل کار شہید کیے گئے۔ اس سے قبل بھی علاقے کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی اہل کاروں پر حملوں کے واقعات ہوچکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خیبر پختون خوا میں ایک بار پھر شدت پسند سر اٹھانے لگے ہیں۔

دیر، باجوڑ اور سوات میں بھتہ خوری کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ صوبے کے وزیر اعلا، گورنر، بعض وزراء، ایم پی ایز اور تاجروں سے مبینہ طور پر بھتہ وصولی کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس سے حالات کی سنگینی کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔

دیر اور سوات میں طالبان کی حالیہ سرگرمیوں کے خلاف عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے لیکن بعض عوامی حلقے اس حوالے سے احتجاج اور مزاحمت کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ضلع دیر میں ملک لیاقت علی پر حملے اور علاقے میں طالبان کی موجودگی کے خلاف ”دیر قامی پاسون“ کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا عوامی جلوس نکالا گیا جس میں مظاہرین نے ”مونگ پہ دیر کے امن غواڑو“ (ہم دیر میں امن چاہتے ہیں ) جیسے نعروں پر مشتمل بینر اٹھائے ہوئے تھے۔

دیر کے لوگوں کو سوات کی حالیہ بدامنی کے نتیجے میں وسیع جانی و مالی نقصانات اور اس کے علاقے اور لوگوں پر دیرپا مضر اثرات کا بہ خوبی اندازہ ہے، اس لئے وہ اپنے علاقے میں کسی قسم کی بدامنی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امن کے لئے نکالے گئے اس بڑے احتجاجی مظاہرے کو مین سٹریم میڈیا نے کوئی کوریج نہیں دی۔ اس وقت ملک میں جاری سیاسی انتشار اور آئینی بحران کے حوالے سے نیوز چینلز لمحہ لمحہ کی رپورٹ دے رہے ہیں اور سینئیر صحافی ملک کی موجودہ ناگفتہ بہ سیاسی صورت حال پر پرمغز تبصروں میں مصروف ہیں جب کہ عام لوگوں کے جینوئن مسائل اور مشکلات کی طرف توجہ دینے کی کسی کو فرصت نہیں۔

وزیرستان اور باجوڑ ایجنسی ایسے قبائلی علاقے ہیں جو افغانستان سے متصل ہیں اور وہاں شدت پسند ایک طویل عرصہ سے موجود ہیں لیکن سوات ایک بندوبستی علاقہ ہے اور وہاں حالیہ طالبانائزیشن سے پہلے لا اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا، البتہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے کارکنوں نے اس سے قبل 2 نومبر 1994 ء میں ضلعی عدالتیں اور سیدو شریف ائرپورٹ اپنے قبضہ میں لے کر پورے سوات میں حکومت کی عمل داری مختصر وقت کے لئے عملاً ختم کردی تھی لیکن اس وقت حکومت نے حکمت سے کام لیا اور ریاست کے خلاف یہ بغاوت شریعہ ریگولیشن 1994 ء، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کور کی مدد سے ختم کردی گئی تھی۔ بہتر حکمت عملی کی وجہ سے اس میں کوئی بڑی خوں ریزی نہیں ہوئی تھی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صوبے کے قبائلی علاقوں کی نسبت سوات عمومی طور پر پرامن رہا ہے اور وہاں پہ شدت پسندوں کے مستقل گڑھ موجود نہیں ہیں۔ اس لئے گزشتہ روز طالبان کی موجودگی نے عوام کے ذہنوں میں کچھ خدشات اور سوالات پیدا کیے ہیں۔

(1)  سوات میں کئی فوجی آپریشنوں کے بعد قیام امن ممکن بنا دیا گیا ہے۔ مستقل امن برقرار رکھنے کے لئے سوات میں ایک بڑی فوجی چھاؤنی بھی قائم کی گئی ہے۔ اس کے بعد طالبان کا علاقے میں دوبارہ ظہور سوات میں فوجی چھاؤنی اور فوج کی موجودگی پر سوالات اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ اگر ایک بریگیڈ فوج کی موجودگی کے باوجود سوات میں طالبان دوبارہ نمودار ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی، حاضر سروس میجر اور ایک فوجی اہل کار کو ان کے قبضے سے واگزار کرانے کے لئے جرگے کا سہارا لیا جاتا ہے تو اس سے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی اور صلاحیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔

(2)  سوات میں طالبانائزیشن کے بعد انٹیلی جنس کا نظام کافی مربوط اور مضبوط بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا۔ انٹیلی جنس اداروں کو قبل از وقت طالبان کی سوات آمد کے بارے میں معلوم کیوں نہیں ہوسکا؟ چند طالبان کے ساتھ سیکیورٹی اہل کاروں کی جھڑپ میں مبینہ طالبان نے کس طرح انھیں گرفتار کر لیا اور پھر انھیں جرگے کے ذریعے چھڑانے سے عوام میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ سوات کے لوگوں کے ذہن میں یہ خدشات گردش کر رہے ہیں کہ کہیں سوات میں ایک بار پھر شدت پسندی کا ناسور پھیلانے کا منصوبہ زیر غور تو نہیں ہے؟

(3)  حکومت اور مقتدر ادارے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور ان کے بعض مطالبات بھی مان رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے چار اہم رہنما مولوی عبدالولی عرف مولوی عمر خالد خراسانی، مفتی حسن، حافظ دولت اور ان کے ایک اور ساتھی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روز وہ پاکستانی سرحد سے متصل افغان صوبہ پکتیکا کے علاقے بیرمل میں ایک دھماکے سے تباہ ہونے والی گاڑی میں مارے گئے ہیں۔ ان میں مولوی عبدالولی عرف عمر خراسانی پاکستانی حکام سے مذاکراتی عمل میں پیش پیش تھے۔

افغان امور کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں طالبان پاکستان کے حکام کے ساتھ مزید مذاکراتی عمل سے انکار کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذکورہ علاقوں میں طالبان کا نیا ظہور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو اور وہ اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوانے کے لئے پاکستانی علاقوں میں از سر نو منظم ہو رہے ہوں۔ یا انھیں پاکستان میں ایک بار پھر کسی خاص مقصد کے لئے جگہ دینے کی دانستہ پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہو۔

(4)  سوات میں جب شدت پسندوں کو علاقے میں پھیلنے دیا گیا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا اتنا عام نہیں تھا۔ اس لئے اصل حقائق چھپانا آسان تھا۔ سوات میں صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر آئی ایس پی آر (سوات آفس) کے ذریعے بریفنگ دی جاتی تھی اور اس کے حکام جو خبر چلوانا چاہتے، میڈیا پر وہی خبر نشر اور شائع کی جاتی تھی لیکن اگر سوات میں شدت پسندی کو دوبارہ ”وسیع تر قومی مفاد“ کی آڑ میں فروغ دیا گیا تو اس بار اصل حقائق چھپانا ممکن نہیں رہے گا۔ دیر میں حالیہ احتجاجی مظاہرہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اس بار سوات کے لوگ بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ وہ اجتماعی طور پر احتجاج بھی کریں گے اور مزاحمت بھی۔

(5)  سوات کوئی سرحدی علاقہ نہیں ہے۔ اس کی سرحد افغانستان سے براہ راست نہیں ملتی۔ یقیناً اس کے داخلی اور خارجی راستوں پر انٹیلی جنس اداروں کی گہری نظر ہوگی، اس لئے سوات میں شدت پسندوں کی دوبارہ آمد اتنا آسان نہیں۔ اگر اس کے باوجود سوات میں دوبارہ بد امنی اور شدت پسندی کو پھیلنے کا موقع دیا گیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری مقامی انتظامیہ اور سوات میں موجود ریاستی اداروں پر عائد کی جائے گی۔

سوات میں فوجی چھاؤنی کی موجودگی پر بھی سوالات اٹھیں گے اور سوات کے لوگ شدت سے یہ مطالبہ کریں گے کہ سوات میں گزشتہ طالبانائزیشن کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو اس امر کا تعین کرے کہ سوات میں باقاعدہ مقامی انتظامیہ، سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی موجودگی کے باوجود شدت پسندی کس طرح پھیلی، اس وقت کے کمشنر سید محمد جاوید کس مقصد کے تحت فضل اللہ کے پاس ”مام ڈھیری“ جایا کرتے تھے اور ان کے اقتدا میں نماز پڑھتے تھے؟ عوام مطالبہ کریں گے کہ دانستہ غفلت برتنے والے اہل کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور سوات کے بے گناہ انسانوں کو قیمتی جانوں اور املاک سے محروم کرنے کے جرم میں ان پر قانون کے مطابق مقدمات قائم کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments