دہشت گردوں کے مقابلے میں کمزور حکومت


وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کی آمد، دہشت گردی اور اس صورت حال پر عوامی احتجاج پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات متعین خطوط کے مطابق طے ہوجائیں گے اور وہ ایک بار پھر پاکستان آکر من مانی کی کوشش نہیں کریں گے۔

وزیر دفاع یا حکومت کے کسی نمائیندے نے پاکستانی طالبان کی موجودگی کے خلاف مقامی باشندوں کے احتجاج پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حکومت اس صورت حال کا سختی سے نوٹس لے گی اور قانون شکنی، قتل و غارت گری میں ملوث یا دہشت پھیلانے کا سبب بننے والے عناصر کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجائے گا۔ اس کے برعکس مملکت پاکستان کے وزیر دفاع نے دہشت گرد عناصر کے حوالے سے امید، توقع اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے بات کو سمیٹا ہے۔ قومی اسمبلی کے فلور پر ایک ذمہ دار وفاقی وزیر کا یہ کمزور بیان ملک میں امن و امان کے علاوہ دہشت گردی کے حوالے سے بری خبر ہے۔ خواجہ آصف قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ کی طرف سے یہ معاملہ ایوان میں اٹھانے کے بعد اس موضوع پر بات کررہے تھے لیکن ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ یا تو ان کے پاس پوری معلومات نہیں ہیں یا وہ انہیں عام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خواجہ آصف نے خیبر پختون خوا کے عوام کو امن کا پیغام دینے اور یہ یقین دلانے کی بجائے کہ حکومت کسی بھی صورت میں ناپسندیدہ عناصر کو دوبارہ متحرک و منظم ہونے کی اجازت نہیں دے گی، دو پہلوؤں پر زور دیا۔ ایک یہ کہ قومی اسمبلی کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے دو بار بریفنگ دی گئی ہے ۔ انہیں امید ہے کہ اس بریفنگ میں جو صورت حال بتائی گئی تھی، مذاکرات میں اس کے مطابق ہی پیش رفت ہوگی۔ دوسرے انہوں نے موجودہ صورت حال کی ذمہ داری قبول کرنے اور یہ یقین دلانے کی بجائے کہ کسی بھی قیمت پر ایک بار پھر ملک میں انتہاپسندی اور دہشتگردی کو پنپنے نہیں دیا جائے گا، سابقہ حکومت کی پالیسی پر نکتہ چینی سے کام چلانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے طالبان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’عمران خان سمیت تحریک انصاف کے لیڈروں نے طالبان کو صوبے میں آنے کی دعوت دی تھی اور ان کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن اب وہ خود ہی ان عناصر کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں‘۔ سابقہ حکمران پارٹی پر تنقید کے باوجود وزیر دفاع نے تسلیم کیا کہ دیر، سوات اور خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں میں احتجاج ہؤا ہے کیوں کہ وہاں تحریک طالبان کے عناصر نے دنگا فساد کا آغاز کیا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان حکومت کی بےبسی کے علاوہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس معاملہ میں وفاقی حکومت کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی وہ قومی اسمبلی کو دہشت گردی کے پھیلاؤ یا ٹی ٹی پی کے ارکان کی سرگرمیوں کے خلاف سرکاری کوششوں کے بارے میں بتا سکے تھے حالانکہ انہوں نےتسلیم کیا کہ دہشت گردی کسی صوبے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ یعنی وہ اصولی طور پر یہ ذمہ داری قبول کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت ہی ان ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی ذمہ دار ہے۔ کسی بھی حکمران پارٹی کی طرف سے ہر معاملہ میں سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا ڈھول پیٹنا اب بہت فرسودہ طریقہ ہوچکا ہے۔ نہ عوام کو ان دعوؤں پر اعتبار ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے صورت حال تبدیل ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت نے بڑے شوق سے طویل جد و جہد اور سیاسی گٹھ جوڑ کے بعد عمران خان کی حکومت کو ختم کرکے انتخاب کروانے کی بجائے، حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دوران تحریک انصاف نئے انتخابات کروانے کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے اور بیشتر غیر جانبدار تجزیہ نگار بھی نئے انتخابات کو ہی ملکی مسائل کا واحد حل قرار دیتے ہیں ۔ انتخابات کے نتیجہ میں ہی کوئی ایسی حکومت اقتدار سنبھال سکتی ہے جسے عوام کے علاوہ اداروں کا اعتبار بھی حاصل ہوگا اور اسی طرح وہ عالمی سطح پر پاکستانی حکومت کو بااعتبار بھی بنا سکتی ہے۔

موجودہ حکومت کا اصرار ہے کہ مزید ایک سال تک انتخابات منعقد کروانا قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس دعوے کے بعد شہباز حکومت اور اس کے نمائیندوں کے پاس کسی بھی مسئلہ کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالتے ہوئے خود اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سے پہلے خراب معیشت اور بے پناہ مہنگائی کی ساری ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر ڈال کر مسلسل عوام کو اس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ وزیر دفاع نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اب شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکار کیا ہے اور اس کا ذمہ دار بھی عمران خان کو قرار دیا جارہا ہے۔ یہ طرز عمل افسوسناک اور حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سابقہ قیادت نے اگر پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا انہیں صوبے میں لانے کے بارے میں کوئی حکمت عملی تیار کی تھی تو موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے بھی اب چار ماہ ہوچکے ہیں۔ حکومت اگر اس پالیسی کو قومی مفاد اور عوام کی حفاظت کے نقطہ نظر سے غلط سمجھتی تھی تو اسے تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن حکومت نے اس پالیسی کو نہ صرف یہ کہ جاری رکھا ہے بلکہ اس میں زیادہ سرعت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ مولانا تقی عثمانی کی قیادت میں علما کا ایک وفد موجودہ حکومت کی تائد و سرپرستی ہی کی وجہ سے ہی کابل میں تحریک طالبان سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔ اسی طرح عمائیدین کے وفود بھی تسلسل سے پاکستانی طالبان کے ساتھ کسی ’قابل قبول‘ معاہدے کے لئے روانہ کئے جاتے رہے ہیں۔ شہباز حکومت کو اس صورت حال کی پوری ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔

یہ بھی ملکی قومی سلامتی کا ایک اہم پہلو ہے کہ دہشت گردگروہوں کے ساتھ معاملات کرنے کی ذمہ داری ملک کے عسکری اداروں کو سونپ دی گئی ہے۔ جیسا کہ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کو اس بارے میں دو بریفنگ دی گئی تھیں۔ ظاہر ہے یہ بریفنگ عسکری اداروں اور فوجی افسروں نے ہی دی تھیں۔ حکومت نے کسی مرحلے پر یہ عندیہ ظاہر نہیں کیا کہ جلاوطن دہشت گروہ کے ساتھ معاملات طے کرنے کی سیاسی اونر شپ قبول کی جائے اور وفاقی کابینہ یا قومی اسمبلی اس معاملہ پر بحث کے بعد واضح حکمت عملی تیار کرے گی۔ یہی کمزوری وفاقی حکومت کو بے بس اور غیرمؤثر بنانے کا سبب بنتی ہے۔ جب حکومت ایک اہم قومی مسئلہ کو اپنی ذمہ داری کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرے گی تو اسے حل کرنے کے بارے میں بھی نہ تو اس کے پاس اختیار رہے گا اور نہ ہی وہ اس کے سماجی و سیاسی اثرات کو کنٹرول کرسکے گی۔

 اس صورت میں عوام بھی حکومت کی طرح اپنی حفاظت کے لئے افواج پاکستان کی طرف ہی دیکھیں گے۔ ملکی سیاسی قیادت کی یہ کوتاہی ملک کو مسلسل بے یقینی کا شکار بنائے گی۔ قومی سلامتی کے اس اہم معاملہ میں وفاقی حکومت کی ’غیر موجودگی‘ اور اس کی طرف سے واضح اشارے موجود نہ ہونے کے باعث عسکری ادارے پالیسی بھی بنائیں گے اور اس پر عمل بھی کریں گے۔ لیکن جوابدہی کے لئے سیاست دانوں کی گردن حاضر ہوگی۔ ملکی سیاسی لیڈروں کو جب تک یہ باریک نکتہ سمجھ نہیں آئے گا ، وہ نہ تو امن و امان کے کسٹوڈین بن سکیں گے اور نہ ہی جمہوری انتظام کو بیرونی و ادار ہ جاتی تسلط سے آزاد کروایا جاسکے گا۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے بتایا تھا کہ ’شمالی وزیرستان کے لوگ گزشتہ 26 روز سے امن کے لئے مظاہرہ و احتجاج کررہے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی پھیل رہی ہے جو جلد ہی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی پر حملہ کیا گیا۔ اس حملہ میں ان کے کئی ساتھی شہید ہوگئے۔ سوات سے حال ہی میں ایک آرمی میجر اور ایک پولیس افسر کو اغوا کیا گیا ہے۔ طالبان مقامی آبادی کو بتا رہے ہیں کہ ان کے لیڈروں نے انہیں واپس جانے کا حکم دیا ہے کیوں کہ وہ پاکستانی حکام سے بات چیت کررہے ہیں‘۔ بدقسمتی سے ملک کے وزیر دفاع کے پاس اس مسئلہ پر پریشانی کے اظہار اور بہتری کی امید کے سوا کوئی متبادل نہیں تھا۔ اس دوران ملکی میڈیا میں بھی خیبر پختون خوا کے متعدد علاقوں میں تحریک طالبان کی واپسی کی خبریں سامنے آئی ہیں لیکن ملک میں جاری سیاسی دنگل اور ایک دوسرے پر سازش و بغاوت کے الزام لگانے کے ماحول میں اس اہم مسئلہ کی نہ تو پوری تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اور نہ ہی یہ اہم معاملہ قومی مباحثہ میں جگہ پاسکا ہے۔

ابھی تک سرکاری طور سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک طالبان سے ہونے والے مذاکرات آئین پاکستان کے دائرے میں ہورہے ہیں۔ یعنی حکومت اس کالعدم دہشت گرد گروہ کو کوئی ماورائے آئین سہولت فراہم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ دہشت گردی اور قتل و غارتگری میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ٹی ٹی پی کو پاکستانی آئین سے وفاداری کا اعلان کرنا ہوگا۔ ان خطوط پر ہونے والی بات چیت کسی بھی لحاظ سے پریشان کن نہیں ہوسکتی لیکن لگتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے بہت سی باتوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔ زمینی حقائق بھی اس قیاس کی تائد کرتے ہیں۔ واپس آنے والے عناصر اگر اپنے علاقوں میں امن سے رہنے کے لئے آتے تو شاید کوئی دشواری نہ ہوتی لیکن انہوں نے دہشت گردی اور زور ذبردستی کے دیرینہ طریقوں کو اختیار کیا ہے۔ اس صورت حال پر عوام کی پریشانی اور احتجاج قابل فہم ہے۔

ملک میں معاملات خواہ کیسے ہی طے کئے جاتے ہوں لیکن حکومت کو جاننا چاہئے کہ دہشت گردی کے فروغ اور بعض علاقوں میں ریاست پاکستان کی رٹ ختم کرنے کے واقعات کے لئے منتخب حکومت کو ہی جوب دہ ہونا پڑے گا۔ اس لئے وزیر دفاع کو بے بسی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عسکری اداروں سے جواب طلب کرنا چاہئے اور ملک کو ایک بار پھر بدامنی اور تشدد کی طرف لے جا نے والے عوامل کا فوری خاتمہ کرنے کی پالیسی سامنے لانی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments