جمہوریت، حق اور آزادی کی زندہ تصویر


یزید امیر معاویہ کی طرح بڑا سیاست دان تو نہ تھا لیکن شیطان کی طرح جلدی میں رہتا تھا۔ اپنی مخالفت کا ایک لمحہ بھی اسے برداشت نہیں تھا۔ اس لیے باپ کی وفات کے بعد حاکم مدینہ کو فوراً حکم دیا کہ اُن لوگوں سے زبردستی بیعت لی جائے خصوصاً امام حسین ؑ سے۔ اگر یہ لوگ آسانی سے نہ مانیں تو اُن کے سر کاٹ کے پیش کیے جائیں۔ واقعہ کربلا تاریخ کا اہندوناک واقعہ ہے۔ حسین ؑ امن و صبر کا پیکر ہیں ۔یزید ذلت و رسوائی کا پُتلا ہے۔ تپتے ہوئے ریگزار میں دو کردار واضح نظر آتے ہیں۔ یہ اقدار اور حق و باطل کی جنگ تھی۔یزید شراب کے نشے میں دُھت رہتا تھا۔ یزید نے زندگی میں ایک حج کیا جس میں وہ سفر کے لیے شراب کے مٹکے ساتھ لے کر گیا۔ سیدہ فاطمہ ؓ کے شہزادے حسین ؑ نے 25حج پیدل کیے۔ نواسہ¿ رسول جگر گوشہ¿ بتول ؓحق کی وہ عظیم تصویر ہیں جنھیں اسلام کی تاریخ میں سونے کی تاروں سے کاڑھا گیا ۔ حسن ؓ اور حسین ؓدونوں اُوپر تلے کے دو بھائی تھے۔ رسول اللہ ﷺکواپنے نواسوں سے بہت پیار تھا۔ اُن کی محبت میں ایسی شدت تھی کہ جب تک بچوں کو دیکھ نہ لیتے چین نہ پڑتا۔ حسن ؓ اور حسین ؓ جب ذرا بڑے ہوئے تو آپ اُنھیںمسجد ساتھ لے جاتے۔نماز پڑھتے وقت بچے آپ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے تو آپ سجدہ لمبا کردیتے۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے خطبہ فرما رہے تھے کہ حسین ؓ بھاگتے ہوئے آئے تو ٹھوکر کھا کر گر پڑے ۔ نانا نے خطبہ چھوڑ کر لپک کر حسین ؓ کو سینے سے لگایا۔ جب وہ بہل گئے تو پھر خطبہ جاری کیا۔ جناب ِ سیدہ فاطمہ زہرا ؓجب دیکھتیں کہ اُن کے بابا دونوں بیٹوں سے بہت لاڈ پیار کررہے ہیں تو فرماتیں ”بابا جان اتنا لاڈ نہ کیا کیجیے یہ بگڑ جائیں گے ، کہنا نہیں مانیں گے بلکہ خود سر اور نافرمان ہوجائیں گے“۔ جواب میں آپ مسکرا کر پیاری بیٹی کو جواب دیتے ’محبت سے بچہ بگڑتا نہیں بلکہ خود محبت کا لین دین سیکھتا ہے۔ جسے محبت کرنے کا فن آتا ہو وہ انسان دوسروں کے لیے رحمت کا باعث بنتا ہے ‘۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر حسنین کریمین ؓ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں دُنیا میں میرے پھُول ہیں ۔ جو حسین ؓ سے محبت کرے گا اللہ اُس سے محبت کرے گا اور جو حسین ؓ سے بغض رکھے گا اللہ اُس سے بغض رکھے گا۔
دسویں محرم کا دن تاریخ کا درد ناک باب ہے۔ اس دن میں حق و باطل کی معرکہ آرائی اور صبر و ستم کی آمیزش آنسوﺅں کے ساتھ رقم ہے۔ امیر معاویہ بن ابی سفیان شام کا حاکم تھا۔ اُس کے پاس بے شمار دولت تھی۔ اُس نے اسلامی اُصولوں کو پسِ پشت ڈال کر نجی دولت کو فروغ دیا اور اپنی زبردست فوج تیار کرلی۔سرمایہ دارانہ نظام اور شہنشایت کے پھلنے کے لیے نجی دولت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ اس نے ہر جگہ اپنے اسلامی گورنر مقرر کردیے جنھیں اپنی فوج رکھنے کی اجازت تھی۔ وہ مالک اور عام مسلمان اُن کے غلام بن گئے۔ امیر معاویہ کو اپنے بیٹے یزید سے عجیب قسم کا عشق تھا۔ کچھ چاپلوس مصاحبین نے امیر معاویہ کو رائے دی کہ اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کرجائیں تو بعد میں خون خرابہ نہیں ہوگا۔ لوگوں کو اعتراض تھا کہ یہ بدعت ہے۔ یہ اسلام کی نافرمانی اور شہنشایت کی رسم ہے لیکن اقتدار اور طاقت کی ہوس انسان کو درندہ بنا دیتی ہے ۔ جب ظلم اپنے عروج پہ آتا ہے تو کسی کو اس سے ٹکرانے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ ظالم شیر ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ کربلا میں ہوا۔
اہلِ شام تو پہلے سے ہی امیر معاویہ کو پہلے سے ہی خلیفہ مانتے تھے۔ اُن سے بیعت لینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ شام سے مطمئن ہوکر یزید کی بیعت کی تحریک کو آگے بڑھایا گیا۔ کوفہ والوں نے کچھ مخالفت کی لیکن ظلم کے آگے لوگوں نے سر جھکا دیا اور یزید کی ولی عہدی قبول کرلی۔ امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید کو نہ تو باپ کی قبر پہ جانا نصیب ہوا نہ آخری دیدار۔جس شہزادے کو رسول اللہ ﷺ اپنی سیرت کی تجلیات سے خود سرفراز فرما دیں اُن کے فضل و کمال کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ امام حسین ؑ یزیدیت کے مظالم اور اسلامی اُصولوں کے منافی ہاتھوں پہ کیسے بیعت کرسکتے تھے۔ زندگی بھر نواسہ¿ رسول کے ہاتھ سے دین و شریعت کا دامن نہیں چھوٹا تھا ۔
کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں آپ اور آپ کے کنبے پر پانی بند کردیا گیا۔ نیزوں اور برچھیوں کی بارش برسائی گئی ۔ جواں علی اکبر کو اُن کی نگاہوں کے سامنے قربان کردیا گیا۔ ننھا علی اصغر اُن کی باہوں میں دم توڑ گیا ۔ لاڈلی بہن زینب ؓکو بے سہارا چھوڑ کر اپنی جان کے خون کا آخری قطرہ بھی راہِ حق میں بہا دیا۔ امام عالی مقام حریت، حق اور آزادی کی زندہ تصویر ہیں۔ حسین ؑ کی شہادت سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے نفرت ، عداوت ، لالچ ، بے حیائی اور باطل کی تقلید سے چھٹکارا پائیں ۔ حضرت امام حسینؑ کا نام یقین اور ایمان کا استعارہ ہے ۔ کربلا کی جھلستی ریت پہ نمازِ عصر کے وقت حسین ؓ سجدہ ریز ہوگئے۔ شمر شیطان نے امام حسین ؑکی گردن کے اُس مقام پہ جہاں رسول اللہ ﷺ بوسہ دیا کرتے تھے خنجر چلا دیا۔ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی حسین ؑکی محبت اور غم اربوں انسانوں کے دلوں میں رہتی دُنیا تک سمایا رہے گا۔ یزید کا نام شیطان کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ روزِ قیامت تک حسین ؑ ابن علی ؑ کا نام زندہ رہے گا۔ کربلا کا واقعہ باطل کی نفی اور حق کے اثبات پر مکمل ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments