11 اگست: یوم اقلیت:قائد کے پیغام کی یاد دہانی


اگست کا مہینہ دو باتوں کی بنا پر اہمیت کا حامل ہے۔ پہلا یوم آزادی جو کہ ہر سال 14 اگست کو منایا جاتا ہے اور اس برس ہمیں آزادی حاصل کیے پورے 75 سال ہو جائیں گے۔ دوسرا 11 اگست جو کہ یوم اقلیت کے طور پر حکومتی اور نجی دونوں سطح پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے پیغام کو اجاگر کرنا ہے جنہوں نے ایسے ملک کی تشکیل چاہی تھی جو معاشرتی برائیوں مثلاً اقربا پروری، بدعنوانی، رشوت، بددیانتی سے پاک ہو اور جہاں امن و امان، حقوق کی مساوات اور مذہبی آزادی کا تحفظ ہو۔

11 اگست کی اہمیت:

گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کو اگر مساوی شہری حقوق، مذہبی آزادی، جمہوری اساس کا منشور کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس تقریر میں مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے مختلف مسائل اور واقعات تواتر سے ایسے رونما ہوئے جن میں میں اقلیتوں نے سماجی، سیاسی اور اقتصادی جہتوں کے مختلف پہلوؤں سے خود کو الگ تھلگ محسوس کیا۔ مثلاً درسی کتب میں تعمیر پاکستان یا تحریک پاکستان میں کردار کو نظر انداز کردینے سے مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کو کھلی چھوٹ مل گئی اور مذہبی اقلیتوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

شہباز کلیمنٹ بھٹی کی جدوجہد پر 2009 میں 11 اگست کو حکومت پاکستان نے قومی اقلیتی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ ہر سال یوم اقلیت کے موقع پر سیاست دان اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ اقلیتوں کی شمولیت کے بنا پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم ایک قوم ہیں، پاکستان کی جدوجہد میں اقلیتوں کے کردار سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور بابائے قوم ہمیشہ ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جس میں کسی نسل، نسل، ذات یا عقیدے کے خلاف کوئی امتیاز نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی یوم اقلیتی منانا اچھی پیش رفت ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں کی مشکلات پر بحث و مباحثہ بڑھنے سے لوگوں کو آگہی ملی کہ پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں کن مشکلات کا شکار ہیں اور کس طرح سے وہ ترقی میں ابھی بھی اکثریت سے پیچھے ہیں۔ آئیے چند ایک عناصر کا جائزہ لیتے ہیں۔

2017 میں، پنجاب بیورو آف سٹیٹسٹکس اور پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (PCSW) نے ”خواتین کی معاشی اور سماجی بہبود کا سروے“ شروع کیا۔ جس کے مطابق 50 فیصد اقلیتی خواتین کبھی سکول نہیں گئیں، 13 فیصد نے پرائمری تک، 12 فیصد نے دسویں جماعت تک اور 3 فیصد نے گریجویشن یا اس سے اوپر تک تعلیم حاصل کی۔ جبکہ 18۔ 29 سال کی 22 فیصد (مسلم) خواتین گریڈ 12 اور اس سے اوپر تک تعلیم حاصل کر سکتی تھیں، اقلیتی خواتین کی شرح خواندگی ( 11 فیصد) کم تھی۔ ان اعداد و شمار کے رجحانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب ملک میں خواندگی کے حصول میں سرفہرست ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ دیگر صوبوں اور علاقوں میں اقلیتی خواتین میں خواندگی کا حصول اب بھی بدتر ہو سکتا ہے۔

1998 میں مجموعی طور پر خواندگی کی شرح 45 فیصد تھی، جس میں مسیحیوں کی شرح 34 فیصد، ہندو تقریباً 19 فیصد، شیڈول کاسٹ 17 فیصد اور دیگر (بدھ، سکھ وغیرہ) ۔ 23 فیصد۔ یعنی ایک اوسط شہری کے طور پر خواندہ ہونے کا امکان تقریباً نصف تھا۔

اقلیتی بچوں کو تعلیم کے حصول میں بعض مخصوص رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مثلاً اسکول کے ماحول میں امتیازی سلوک اور نصابی کتب کا مواد، اسکول چھوڑنے اور کم سیکھنے کے نتائج جیسے چیلنجوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم میں داخلوں کے لیے 2 فیصد کوٹہ کے نفاذ کے باوجود امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ جبکہ آئین پاکستان آرٹیکل 22 (A) حکم دیتا ہے کہ ”کسی بھی تعلیمی ادارے میں شرکت کرنے والے کسی فرد کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے، یا کسی مذہبی تقریب میں شرکت، یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اگر ایسی ہدایات، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔“

سینٹر فار سوشل جسٹس نے پنجاب کے آٹھ اضلاع میں مسیحیوں کے زیر انتظام چلنے والے 43 اسکولوں کا سروے کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مسیحی طلباء تعلیمی سطح تک پہنچنے میں اپنے مسلمان ہم جماعتوں سے تقریباً 12 فیصد پیچھے ہیں جس کی بنیادی وجہ بہت سے اسکولوں کا انفراسٹرکچر، انتظامیہ اور غیر تربیت یافتہ اور نامناسب معاوضے پر اساتذہ کا ہونا تھا جنہیں بہتری کی اشد ضرورت تھی۔ مسیحیوں کے زیر انتظام چلنے والے سینکڑوں اسکولوں میں سے کوئی بھی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مستفید ہونے والوں میں شامل نہیں ہے، جو ضرورت مند اسکولوں کو فنڈ فراہم کرتا ہے۔

اقلیتی خواتین دوہری پسماندگی کا شکار ہیں جن میں صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی، جبری تبدیلی مذہب، شادی کے فرسودہ قوانین اور وراثت کا حق شامل ہیں۔ نیشنل کمیشن برائے جسٹس اینڈ پیس کے اعداد و شمار کے مطابق 43.25 فیصد خواتین کو دوران ملازمت مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ محنت کر کے خود کو منوانا پڑتا ہے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں جبری تبدیلی مذہب کے 78 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ زیر نظر سال میں 2020 کے مقابلے میں 80 فیصد اور 2019 کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ادارہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق جبری تبدیلیوں کے متاثرین میں 39 ہندو، 38 مسیحی اور ایک سکھ لڑکی جن میں 76 بچیاں نابالغ اور 33 فیصد 14 سے بھی کم عمر تھیں۔ جس کی وجہ بڑھتی ہوئی لاقانونیت سے کمزور طبقات کے خلاف جرائم کا بڑھنا اور حکومت کی جانب سے اقدامات کی عدم موجودگی اور غیر سنجیدہ رویہ ہے۔

اقلیتوں کو ملازمت کوٹہ نوٹیفیکشن کے ذریعے مختص کیا گیا لیکن قانون سازی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے گزشتہ سات سالوں میں تقریباً تیس ہزار آسامیاں ملازمت کوٹہ کی خالی رہی ان میں سے انیس ہزار آسامیوں کا تعلق صرف پنجاب سے تھا۔ زیادہ تر آسامیاں جن پر بھرتی کی جاتی رہی وہ نچلے درجے کی تھیں۔ ملازمت کے لیے جاری کردہ اشتہارات میں خاکروب کی نشست اقلیتی افراد کے لیے مختص کی جاتی رہی تاہم پنجاب حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے ایک نوٹیفیکشن بھی جاری کیا مگر ابھی بھی ایسے اشتہارات نظر سے گزرتے رہتے ہیں جو اقلیتوں کی دل آزادی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرتی رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔

حکومت اس سال ڈیجیٹل مردم شماری (افراد شماری زیادہ بہتر لگتا ہے ) کے طور پر متعارف کرانے کا اعادہ رکھتی ہے تو وہ بھی نامناسب تیاری اور سوالنامے پر تحفظات کی بنا پر تعطل کا شکار نظر آ رہی ہے۔ اس کے سوالنامے میں خواجہ سرا اور معذور افراد کی گنتی بھی نا ممکن نظر آ رہی ہے۔ یونیسف کے سروے کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 15 فیصد تک ہے اسی طرح سے سوالنامے کے مذہب کے خانے کے آگے دیگر لکھ کا بات ختم کر دی ہے جبکہ نادرا کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ طرح کے مذہبی شناخت کے لوگ (یہودی، کیلاش، پارسی، بدھ مت وغیرہ) بستے ہیں۔ اس سے ایک خوشی کا پہلو یہ ضرور نکلتا ہے کہ کم از کم نادرا نے ان کی مذہبی شناخت اور مذہبی آزادی کو تسلیم کیا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد شماری میں ان کو دیگر کے خانے میں رکھنے کی بجائے ان کی مذہبی شناخت کو تسلیم کیا جائے۔

دنیا کے بیشتر ممالک کے قوانین اور سیاسی بندوبست میں اقلیتوں کو قومی زندگی اور دھارے میں شامل کرنے، ان کے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں جن میں اعداد و شمار سے لے کر ، زندگی کے تمام شعبوں میں اقلیتوں کی موثر نمائندگی کے لیے قانون، ضابطے اور نظام وضع کرنے شامل ہیں۔

19 جون 2014 کو سپریم کورٹ کے معروف فیصلے میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے مذہبی آزادی کی تشریح آرٹیکل 20 کے مطابق ”ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا اور ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور ان کے انتظام کا حق ہو گا“ ۔

اسی طرح 11 اگست اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرنے کا دن ہے تاکہ وہ اپنی مذہبی یا دیگر شناختوں کی بنا پر کسی محرومی یا احساس کمتری کا شکار نہ ہوں بلکہ تعداد میں کم ہونے کی وجہ اگر ان کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی ہو رہی ہے تو اس کا تدارک کیا جا سکے۔

آئیے عہد کریں ایک ایسے پاکستان کی جہاں تمام شہریوں کو یکساں اور مساوی حقوق نہ صرف ملیں گے بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسی پالیسیاں، قانون اور نظام وضع کیے جائیں گے جہاں ہر شہری خود کو محفوظ اور آزاد محسوس کرتے ہوئے بلاتفریق انصاف، تعلیم اور صحت کی سہولیات سے مستفید ہو گا۔ جہاں ہر شہری اپنے اپنے مذہب کی پیروی، عمل اور تبلیغ کا حق رکھتا ہو گا۔ آنے والا کل اس پاکستان کی عکاسی کرے گا جس کا تصور قائد اعظم نے کیا تھا۔

پاکستان کی آزادی کے 75 سال منانے کے لیے قوس قزح کے رنگوں کا انتخاب تاریخ کو یاد کرنا ہے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی اور تمام مذاہب کے لوگوں کی جدوجہد اور کاوشیں شامل ہیں۔ امید کرتی ہوں کہ عملی زندگی میں بھی تمام لوگوں کے مساوی حقوق کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں گے تاکہ قوس قزح کی طرح آگے بھی لوگ بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب کے پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).