محافظ وطن


یوم دفاع ہو، یوم آزادی ہو یا پھر یوم شہداء ہمیں کسی بھی دن کی اہمیت کا اندازہ اس کے منائے جانے کی شدت اور سرگرمیوں سے بھرپور تقاریب سے ہوتا ہے۔ ہم اپنی روایات، اقدار اور اسلاف کی قربانیوں کی داستانیں تاریخ کے اہم موڑ اور قابل ذکر عہد کو اپنی آنے والی نسل کو وراثت کے طور پر دینے کے قائل ہیں۔ جب بچہ اپنے ننھے ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہوا توتلی زبان میں کہتا ہے ”پاکستان زندہ باد“ تو سننے والا جھوم کر اس کے گالوں پر پیار کرتا ہے یہ وہ مہر ہوتی ہے جو ہماری تربیت کو سرخرو کرنے کے لئے لگائی جاتی ہے۔

1947 سے لے کر 1965 تک جو شجاعت اور استقامت کی عظیم داستانیں رقم ہوئیں اور وطن کی شادابی و سیرابی کے لئے جو لہو بہایا گیا وہ پوری دنیا پر عیاں ہے مگر کیا اس کے بعد یہ خون بہنا بند ہو گیا؟ کیا اسی طرح سے جوانیاں قربان ہونا بند ہو گئیں؟ کیا سرحدوں پہ خطرہ ختم ہو گیا؟ کیا وہی بربریت جارحیت ناپید ہو گئی؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اس کے بعد سے آج تک دشمن مختلف انداز میں ہمارے سروں پر منڈلانے کے لئے پر تولتا ہے اس کی نظر آج بھی گدھ کی طرح ہماری پاک زمین اور اس میں بسنے والے مسلمانوں پر ٹکی ہوئی ہے مگر ہمارے شاہین آج بھی اسی طرح تیار و کامران ہیں ہمارے شاہینوں کی بلند نگاہی و بلند پرواز اور درویشانہ صفت ان کے گلے کا طوق بننے کو تیار ہے اسی لیے تو دہشت گردی کے اس سونامی کو دفنانے کے لئے آج نہ صرف افواج بلکہ پوری قوم یکجا ہو چکی ہے اور قربانیوں کے لئے سینہ تانے کھڑی ہے دہشت گردی کی شاطرانہ چالیں شطرنج کے کھلاڑی جہاں سے چاہیں چلا کر دیکھ کر لیں جہاں چاہے اپنے مہرے بدل کر دیکھ لیں یہ شطرنج کی بساط ہماری ہی رہے گی جب سے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں تو پاکستان لاتعداد قربانیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے مائیں اپنے بیٹے پال پوس کر جوان کرتی ہیں اور کسی حوصلے سے اس وطن کے حوالے کرتی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی مگر جہاں معصوم بچوں کے خون کی ندیاں بہانے کے لئے یہ دہشت گرد اپنی بربریت اور وحشت ناک عزائم لے کر متحرک ہوتا ہے تو پوری قوم لرز اٹھتی ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر تمام انسانیت کے دعویدار بھی تڑپ اٹھتے ہیں تو ایسا ہی ہوا سانحہ پشاور کے بعد تمام قوم ایسے بیدار ہوئی کہ جیسے ایک ایک بچے کا لہو ان کے اپنے جگر سے نکلا ہوا اور ساتھ میں سب سے بڑا عظیم اور اہم فیصلہ ضرب عضب انتہائی شدت انگیز حالات کے لئے ایک وقت کی پکار بن گیا اتنا اہم فیصلہ صحیح وقت میں 1965 کی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔

ملکی سرحدوں میں گھس کر شہری آبادی کو نشانہ بنانے والے ہمارے بزدل دشمن نے ایک ہر بار ہماری سکیورٹی فورسز کو للکارتا اور منہ کی کھاتا ہے، ہماری سکیورٹی فورسز اور مادر وطن کے محافظ ماں دھرتی کی حفاظت کے لئے سربکف ہیں۔ یہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سپہ سالارانہ صلاحیت اور فقیہ الذہنی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر سچے مسلمان، سچے پاکستانی اور مجاہد وطن ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ان کے اس فیصلے کو لبیک کہہ کر وطن کا ہر فرد اور مٹی کا ہر ذرا اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اس عزم اور اس فیصلے کو سانحہ پشاور کے شہید بچوں سمیت مختلف سانحات میں میں شہید ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کے لہو نے اور جلا بخشی ہے۔

افواج وطن کا افضل ترین فریضہ اپنے وطن کا دفاع کرنا ہوتا ہے اور یہ فریضہ پاکستان کی افواج دنیا بھر کے تمام ممالک کی افواج سے زیادہ بہترین حکمت عملی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ ادا کر رہی ہے ہماری عسکری قوتیں چاہے فضائی، بحری اور بری ہوں ان کے لئے اپنے ملک کی تمام حدود کی حفاظت اپنے وجود کی بقاء سے زیادہ معتبر اور مقدم ہے یہ بات روز اول کی طرح ہر ایک پر روشن ہے کہ ہم نے اپنا وطن پاکستان کتنی لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا ان قربانیوں میں ہم نے صرف اپنی جانیں نہیں گنوائیں بلکہ اپنے اہل و عیال و بزرگ مال و مویشی اپنے گھر بار سب کچھ ایسے قربان کر دیے جیسے قربان کرنے کا حق تھا۔

ہر مسلمان اللہ کا سپاہی ہے اپنے نبیﷺ کی سیف اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے تصورات کا شاہین ہے جب بھی ہمارے وطن پہ مشکل وقت آیا تو ہماری افواج اور عوام نے اپنے فوجی بھائیوں کی اس طرح مدد کی کہ بچوں نے اپنے جیب خرچ، ملک کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے زیور تک بیچ کر ملک کے خزانے میں جمع کروا دیے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جنگیں صرف فوجیں نہیں بلکہ قومیں جیتا کرتی ہیں کچھ محاذ ایسے ہوتے ہیں جو زمینی و آسمانی آفات کی بناء پر قوم کو یکجا کرتے ہیں اور قومیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں جیسے سیلاب زلزلے اور کوئی بڑا حادثہ، سب سے بڑا محاذ جنگی محاذ ہوتا ہے جس میں دشمن اپنے ناپاک عزائم لے کر بزدلوں کی طرح رات کی تاریکی میں ہمارے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے اسی طرح ستمبر 1965 میں بھارت جیسے ازلی دشمن نے بنا للکارے گیدڑوں کی طرح حملہ کر دیا مگر آفرین ہے ہماری افواج اور قوم پر کہ ناموافق بین الاقوامی حالات اور محدود وسائل کے باوجود جذبہ مسلمانی و ایمانی جذبہ حب الوطنی اور جذبہ جہاد کے تحت ہم نے ایک ہو کر ان کو شکست فاش دی اور ان کی فتح کا جھنڈا ذلت کی پستیوں میں گاڑ دیا۔

ہمارے دفاعی فرزند ایک ہی نظریے کے تحت میدان جنگ میں اتر کے شہ زوری سے لڑتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے دین اور قومی وجود کو کسی بھی طور باطل قوتوں سے مغلوب نہیں ہونے دینا۔ ہمارے نبیﷺ نے خود مدینہ شریف کے دفاع کے لئے راتوں کو پہرہ دیا اور اپنے صحابہ کر امؓ کو جو وہاں حفاظت کے لئے مامور تھے خفیہ ہدایات بھی دیں۔ مملکت اسلامیہ کو استحصالی قوتیں برداشت کہاں کرتی ہیں لیکن ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان کی جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ویسے بھی اللہ پاک کے راستے میں لڑنے کو مسلمان کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے ۔

وہ افواج جس کی غرض صرف پاکستان کی سلامتی اور عوام کی پرسکون نیند ہے اس لیے انہوں نے اپنی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے اپنی پرسکون نیند کو دان کر دیا ہے اور صرف خود کو ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی اس قربانی میں برابر کا شریک کر دیا ہے انہیں اپنے بچوں کے یتیم ہونے کا خوف نہیں انہیں بیویوں سے جدائی کا افسوس نہیں وہ تو صرف ایک عزم ہیں، ان کی نگاہوں میں اقبال ؒکا خوددار مومن جھلکتا ہے ہزاروں فٹ کی بلندی پہ کھڑے تنہا سپاہی اپنی آنکھوں کو شاہین کی طرح شکار کے لئے چوکنا رکھے اندھیروں میں گھات لگائے چوٹیوں سے اپنے سینے کے سنگلاخ عزم کو ٹکراتے ہوئے کبھی نہیں سوچتے کہ صبح کا سورج ان کی آنکھوں میں طلوع ہو گا یا نہیں۔ ان کی قربانی کا اندازہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر نہیں لگا سکتے ہم افواج پاکستان کے خلاف بول کر اور سڑکوں پر ریلیاں نکال کر حکومت کے درپیش مسائل میں اضافہ کر کے نہیں لگا سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments