انڈیا میں ایڈز کے مریضوں کو دوائیاں کیوں نہیں مل رہی ہیں؟

شرنیہ رشی کیش - نمائندہ بی بی سی، دلی


انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں رہنے والے جے پرکاش گذشتہ تین ہفتوں سے روزانہ 11 گولیاں کھا رہے ہیں۔ جے پرکاش ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں اور عام طور پر وہ دن میں صرف دو گولیاں کھاتے تھے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے 44 سالہ جے پرکاش کا کہنا ہے کہ انھیں ایڈز کے مرض کے لیے جو صحیح دوا درکار ہے وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہے، اس لیے انھوں نے ایک عارضی علاج ڈھونڈ لیا ہے اور وہ بچوں کی دی جانے والی کم پوٹینسی (خوراک یا قوت والی) گولیاں زیادہ تعداد میں کھا رہے ہیں۔

خیال رہے کہ انڈیا میں حکومت اے آر ٹی (اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی) مراکز کے ذریعے ملک میں ایڈز کے مریضوں کو مفت ادویات فراہم کرتی ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کا ان مفت ادویات پر انحصار ہے۔

جے پرکاش اور ان جیسے سینکڑوں دوسرے لوگ جو ایچ آئی وی ایکٹویسٹ گروپ سے وابستہ ہیں، دہلی میں نیشنل ایڈز کنٹرول آرگنائزیشن (ناکو) کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ ناکو مرکزی حکومت کی ایک ایجنسی ہے جو ٹینڈر جاری کر کے دوا ساز کمپنیوں سے ایچ آئی وی کی دوائیں خریدتی ہے۔

مظاہرین کا الزام ہے کہ اس وقت ایڈز کی ادویات کی قلت کا شدید بحران ہے۔ ان کے مطابق جن دوا کی کمی ہے ان میں 50 ملی گرام دوا ڈئلیوٹگراویر بھی شامل ہے۔ ناکو کے مطابق یہ دوا ایچ آئی وی سے متعلق تمام بیماریوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر دی جاتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس دوا کا ناغہ ہو جائے تو مریض کا وائرل بوجھ بڑھ سکتا ہے۔ اس سے ایچ آئی وی انفیکشن پھیلنے کا خطرہ اور وائرس کے خلاف مزاحمت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی کے مریضوں میں ٹی بی جیسے دیگر وائرس سے انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

اگرچہ یہ دوا پرائیویٹ میڈیکل سٹورز پر دستیاب ہے لیکن بہت سے مریض اس کی قیمت ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

احتجاج کرنے والے ایک دوسرے شخص ہری شنکر سنگھ کا کہنا ہے کہ پہلے اے آر ٹی سنٹر کم از کم ایک ماہ تک کی دوائیں دیتے تھے۔

وہ کہتے ہیں ‘لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے، ہمیں ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں اپنے اراکین سے یہ خبر مل رہی ہے کہ اب انھیں کم وقت کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں۔ شروع میں انھیں چند ہفتوں کے لیے دوا مل رہی تھی، پھر اس وقفے میں بھی کمی آتی گئی۔’

جے پرکاش کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کے لیے جو پرائیویٹ میڈیکل سٹورز سے دوا نہیں خرید پا رہے ہیں ان کے لیے حالات بہت مشکل ہو گئے ہیں۔

انڈین حکومت کا جواب

بہر حال انڈیا کی وزارت صحت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ بی بی سی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت صحت نے کہا کہ ‘کوئی ایسی دوا نہیں ہے جو دستیاب نہ ہو۔ نہ دستیابی میں اور نہ ہی فراہمی میں کوئی کمی ہے۔ ریاستی یا قومی سطح پر اے آر وی ادویات یا علاج کی خدمات کوئی کمی نہیں ہے۔’

رضاکاروں کا الزام ہے کہ رسد میں موجودہ خلل ٹینڈر دیر سے جاری ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے علاوہ جس کمپنی کو شارٹ لسٹ کیا گیا وہ بلیک لسٹڈ کمپنیوں میں شامل ہے۔

ان الزامات پر بی بی سی کے سوال کا وزارت صحت کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔ وزارت نے کہا ‘متعدد دوائیوں کے لیے نئے آرڈرز دیے گئے ہیں اور موجودہ سٹاک ختم ہونے سے پہلے دوائیں فراہم کر دی جائیں گی۔’

انڈیا دنیا میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔

انڈیا میں کل 23 لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ انڈین حکومت نے سنہ 2004 میں مفت اینٹی ریٹرو وائرل ادویات فراہم کرنا شروع کیں۔

لوگو ایڈز/ایچ آئی وی

ایچ آئی وی کے مرض میں مبتلا لوگوں کے معاملے میں انڈیا دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے

پہلے دوا کا خرچ سالانہ ایک لاکھ روپے سے زائد تھا

انڈیا کی بڑی دوا ساز کمپنی سپلا نے تین ادویات کے مرکب سے تیار ہونے والی ایڈز کی مہنگی دوا کا جنرک ورژن مارکیٹ میں فراہم کرایا تھا۔

اس سے پہلے یہ ادویات صرف بڑی بین الاقوامی دوا ساز کمپنیاں فروخت کرتی تھیں۔سپلا کی جنرک دوا کے تین سال بعد حکومت نے مفت ادویات دینے کا پروگرام شروع کیا۔

رضاکار لون گانگٹے کے مطابق پہلے ایک سال کی دوائیوں کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار روپے تک آتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی مہنگی دوائی نہ تو عام لوگ برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت۔

ان کا دعویٰ ہے کہ سپلا کی دوا مارکیٹ میں آنے کے بعد دوائی کی سالانہ قیمت 35 ہزار روپے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اس وقت سے انڈیا سستی قیمتوں پر ایچ آئی وی ادویات فراہم کرنے والا دنیا کا سرکردہ ملک بن گیا ہے۔ انڈیا بطور خاص افریقی ممالک کے لیے ادویات فراہم کرتا ہے۔

تاہم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اتنی قیمت بھی ادا نہیں کر سکتے اور اسی لیے ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے حکومت کی مدد ضروری ہے۔

وزارت صحت نارکو اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کے سٹاک کی نگرانی کرتی ہے اور موجودہ صورتحال کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رچررڈ گیئر کا شلپا شیٹی کو بوسہ: اداکارہ 15 سال بعد فحاشی پھیلانے کے الزامات سے بری

’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا خون اور سپرم زہریلے ہیں‘

ایڈز کے بارے میں آٹھ غلط تصورات

ایچ آئی وی کے 85 فیصد مریض ٹی ایل ڈی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس دوا کا تین ماہ کا سٹاک موجود ہے۔

وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘قومی سطح پر 95 فیصد مریضوں کے لیے بھی مناسب سٹاک دستیاب ہے جو پہلے یا دوسرے مرحلے کا علاج کرا رہے ہیں۔’

ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ سے وابستہ منوج پردیشی کا کہنا ہے کہ اگر ایک بھی مریض کو دوائی نہیں مل رہی ہے تو یہ بھی ناقابل قبول ہے۔

پردیشی کا کہنا ہے کہ ‘بہت سے لوگوں کو میڈیکل سٹورز سے دوائیں خریدنے کو کہا گیا ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ مسائل انھیں پیش آ رہے جو ٹی ایل ڈی ریجیمن دوا لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان بچوں کو بھی دقت کا سامنا ہے جو بچوں کی ادویات لے رہے ہیں۔

1986 میں انڈیا کا پہلا ایڈز کلینک شروع کرنے والے ڈاکٹر ایشور گیلاڈا کا کہنا ہے کہ 15-20 دن تک دوا ناغہ ہونے سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا لیکن موجودہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ یہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘ایک بار جب سپلائی دوبارہ شروع ہو جائے اور مریضوں کو تینوں دوائیوں کا باقاعدگی سے مجموعہ نہ ملے تو لوگوں میں دوائیوں کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔’

ایسے حالات 2014 میں بھی تھے

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا رسٹینس ٹیسٹ نہیں کراتا جس سے پتا چلے کہ دوا کا مریض پر اثر ہو رہا ہے یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کے علاوہ، یہ لوگوں کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ دوائیاں تلاش کرنے کی ذمہ داری مریض کی تو نہیں ہونی چاہیے۔’

تاہم، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب رسد میں مبینہ خلل کی وجہ سے ایچ آئی وی کی دوائیوں تک مریضوں کی رسائی متاثر ہوئی ہے۔ سنہ 2014 میں بھی مریضوں کو بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں میں دواؤں کی قلت کے دیگر واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

ڈاکٹر گیلاڈا نے ٹینڈر جاری کرنے کے پیچیدہ عمل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ادویات خریدنے کا عمل بہت تھکا دینے والا ہے اور کم منافع کی وجہ سے کمپنیاں زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔

‘انڈیا نے پچھلی چند دہائیوں میں ایچ آئی وی پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر انڈیا ایسا نہ کرتا تو عالمی سطح پر صورتحال بہت زیادہ خراب ہوتی۔’

انھوں نے مزید کہا ‘ہم نے اس سمت میں بہت کچھ کیا ہے اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments