گھریلو تشدد: ’عورت کی چُپ ہی اس کا گھر بساتی ہے‘

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


گھریلو تشدد، خواتین، پاکستان
Science Photo Library
’بیٹا ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ کل پوٹلا باندھ کر گھر آؤ واپس۔‘

’امی! میں کوشش کر رہی ہوں۔۔۔‘

’پچھلے تین سال سے یہ شکل صورت کا دھوبی دُھلا بنا کر رکھ دیا ہے اس آدمی نے۔ پٹائی، پھٹکے، دھلائی۔۔۔ چلے ہی جا رہا ہے!‘

’امی ٹائم لگتا ہے۔۔۔‘

’وہ ایسے ٹھیک نہیں ہوگا۔ وہ ایک دن اتنا مارے گا نا۔ مر جائے گی میری بچی۔‘

یہ سین انڈیا اور پاکستان سمیت دنیا کے بیس سے زیادہ مملک میں نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والی عالیہ بھٹ کی نئی فلم ‘ڈارلنگز’ کا ہے۔

شاید اس فلم کو انڈیا اور پاکستان میں اس لیے پسند کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کا موضوع بہت عام ہو کر بھی بہت مختلف ہے۔ مگر اس میں دیکھائے گئے مناظر حقیقت سے قریب ہو کر بھی بہت دور ہیں۔

اب آپ پوچھیں گے کہ وہ کیسے؟

شوہر کا بیوی پر غصے میں ہاتھ اُٹھانا اور اگلی صبح بیوی کا سب کچھ بھلا کر اس امید پر اسے معاف کر دینا کہ ایک دن وہ سدھر جائے گا، یہ سب بہت عام ہی تو ہے۔ ہر روز ہمیں کسی نہ کسی ڈرامے میں یہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پر روز ہمارے اردگرد کسی نہ کسی عورت سے سننے کو بھی ملتا ہے۔

لیکن میرے لیے اس میں سب سے زیادہ فلمی بات ایک ماں کی اپنی بیٹی کے لیے بھرپور اور غیر مشروط سپورٹ ہے جو کہتی ہے کہ اس آدمی کو چھوڑ دو (حتیٰ کہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ شوہر کو جان سے مارنے کا مشورہ بھی دیتی ہے)۔

میں نے تو اپنی حقیقی زندگی میں اس سے بہت مختلف دیکھا ہے۔

میں نے اپنی بہن کے لیے اپنے گھر والوں کی ایسی بھرپور سپورٹ نہیں دیکھی۔ میں نے جو اصل زندگی میں رویے دیکھے وہ اس فلم سے بہت مختلف تھے۔

جب اس نے میری بہن کو پہلی مرتبہ مارا!

’ان کا جھگڑا ہوا ہے اور اس نے مریم پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ تم ماما پاپا کو کچھ مت بتانا، وہ پریشان ہوجائیں گے۔ میں معاملہ سلجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘

رات کے قریب ایک بج رہے تھے جب میری بڑی بہن نے چھوٹی بہن سے متعلق یہ میسج بھیجا۔ ان کی شادی کچھ ماہ قبل ہی ہوئی تھی۔

’اس نے میری بہن پر ہاتھ اٹھایا؟ اسے مارا ؟ اس کی ہمت کیسے ہوئی میری بہن پر ہاتھ اٹھانے کی؟‘ میرا غصے سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔

’میں کیسے یہ بات ماما پاپا کو نہ بتاؤ؟ یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔‘ ابھی یہ خیالات میرے ذہن میں چل ہی رہے تھے کہ میری ماما کمرے میں آئیں۔

گھریلو تشدد، خواتین، پاکستان

Science Photo Library

میری والدہ نے فکرمند ہو کر مجھ سے پوچھا ’کیا ہوا آدھی رات میں ایسے اتنے غصے میں موبائل سکرین کو کیوں گھور رہی ہو؟‘

میں نے انھیں اپنے پاس بٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ میں نے آپ کو ایک بات بتانی ہے۔۔۔ مریم کا اس کے شوہر کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے۔‘

’پھر سے؟‘ میری والدہ نے پریشان کن نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

میں نے جواب میں کہا ’ہاں! اور اس نے مریم کو مارا ہے۔ آپ ابھی اس کی امی اور بھائی کو فون کریں اور انھیں اس کی اس حرکت کے بارے میں بتائیں۔‘

میری بہن اور بہنوئی نوکری کے سلسلے میں کچھ ہفتے قبل ہی یورپ منتقل ہوئے تھے۔ چند گھنٹوں کی مسافت پر دوسری بہن رہتی تھی۔

میری والدہ نے اصرار کیا کہ میں ان کی بات بڑی بہن سے کرواؤں تاکہ وہ معاملے کی تمام تفصیلات جان سکیں۔

میری ماما کو لگا کہ ضرور بات بہت بڑی ہوگی جو نوبت یہاں تک آئی۔ ’ضرور کسی بڑی بات پر جھگڑا ہوا ہوگا، جو اس نے ایسا کیا۔‘

تو وہ بڑی بات یہ تھی کہ میری بہن گر گئی تھی اور اپنی چوٹ پر دوائی لگا کر لیٹی تھی کہ اس کے شوہر نے کھانا مانگا اور بس اس نے اتنا کہہ دیا کہ ‘طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کھانا خود گرم کر لو۔‘

عورت مارچ، کھانا خود گرم کر لو

یہ سنتے ہی نہ چاہتے ہوئے بھی میرے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔ ’اپنا کھانا خود گرم کر لو۔ اچھا تو یہ وہ الفاظ ہیں جن کو عورت مارچ میں پلے کارڈز پر دیکھ کر اور حقیقی زندگی میں اپنی بیوی کے منع سے سن کر مرد اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔‘

’بس اس بات پر ہاتھ اٹھایا؟‘ میری ماما بار بار میری بڑی بہن سے یہ سوال ایسے کر رہی تھیں جیسے انھیں یقین نہ آ رہا ہو کہ ہمارے معاشرے کے مرد اتنی سی بات پر غصے میں بے قابو کیسے ہوجاتے ہیں۔

جیسے ان کے خود کے شوہر نے کبھی اس سے کہیں چھوٹی اور غیر معمولی باتوں پر سب کے سامنے ان کی تزلیل نہ کی ہو۔

مجھے لگا میری بڑی بہن پڑھی لکھی ہے، دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہے۔ اس نے ضرور میری جھوٹی بہن کو کہا ہوگا کہ سامان باندھو اور یہاں آجاؤ۔

لیکن میری حیرانی اور غصے کی حد نہ رہی جب میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا ’میں نے مریم کر یہاں آنے سے منع کردیا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم صبح اپنے شوہر کے ساتھ یہاں آنا۔‘

میں نے سوچا ’شوہر کے ساتھ آنا؟ اس شوہر کے ساتھ جس نے اسے صرف اس لیے مارا کیونکہ اس نے اسے کھانا نہیں دیا؟ ایسے شخص کی جگہ تو یورپ کے قوانین کے تحت جیل ہوتی ہے نہ کہ اپنے سسرالیوں کے گھر میں!‘

میری بہن کی یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی۔ اس کا اصرار تھا وہ اس طرح ہماری بہن کا گھر بچانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ میں چاہتی تھی کہ میری بہن فوراً پولیس کو کال کر کے اس کے خلاف شکایت درج کروائے۔

اور پھر کیوں نہ دی جائے ایسے مرد کو سزا؟ یہ کہاوت بھی تو ہمارے معاشرے میں عام ہے نا کہ ’مرد کا ہاتھ ایک بار اُٹھ جائے تو کبھی رکتا نہیں۔‘

ہاں مجھے معلوم ہے کہ ویسے تو اس کہاوت کا مقصد عورت کو ہی ڈرانا ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی حرکت یا بات سے ایسی نوبت نہ آنے دے کہ مرد کا ہاتھ اٹھ جائے کیونکہ اس کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

میری بڑی بہن اور میرے درمیان ہونے والی تلخ کلامی سے میرے والد بھی جاگ گئے اور انھیں بھی سارے مسئلے کا علم ہوگیا۔

میں نے سختی سے اپنے والدین کو تلقین کرتے ہوئے کہا: ’آپ لوگ اس (میرے بہنوئی) کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائیں گے۔ آپ اس کی امی، بھائیوں کو ابھی فون ملائیں اور بات کریں۔ آپ پولیس میں شکایت درج کروائیں۔‘

گھریلو تشدد، خواتین، پاکستان

Science Photo Library

'تم کیا بات کو اور بڑھانا چاہتی ہو؟' میری بڑی بہن، جو کال پر ہمارے ساتھ تھی، نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتی، میرے والد نے کہا کہ وہ میرے بہنوئی سے بات کرتے ہیں۔

وہ دوسرے کمرے میں گئے اور میرے بہنوئی کو فون ملایا۔

کچھ دیر بعد میرے والد آئے اور ان کا لہجہ کچھ بدلا ہوا تھا۔ اب اس میں پریشانی اور غصے کے بجائے ندامت اور شرمندگی سی تھی۔

’دیکھا وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ وہ جواب میں کہہ رہا ہے مریم نے مجھے مارا۔ میں نے اسے کہا میں اپنی بیٹی کو سمجھاؤں گا۔‘

میں نے تعیش میں آکر پوچھا: ’آپ مریم کو کیا سمجھائیں گے کہ آئندہ جب وہ مارے تو چُپ کر کے مار کھا لینا، جواب میں ہاتھ اٹھانے یا اسے روکنے کی ضرورت نہیں ہے؟‘

میرے والد نے جواب دیا: ‘ہاں! کیونکہ گھر ایسے ہی بستے ہیں۔‘

اتنی میں میری ماما بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔ اپنے والد اور بڑی بہن کا راویہ دیکھ کر مجھے کچھ زیادہ امید نہیں تھی کہ میرے بہنوئی کو اپنی اس حرکت کے لیے کچھ زیادہ سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اور میری توقعات کے عین مطابق بہنوئی کی امی نے بھی میری ہی بہن کو قصوروار ٹھہرایا۔

انھوں نے کہا ’میں نے اسے بڑے نازوں سے پالا ہے۔ اسے تو گھر میں اُٹھ کر ایک گلاس پانی بھی پینے کی عادت نہیں۔‘

’پھر مرد کو ایسی باتوں پر غصہ تو آ ہی جاتا ہے نا۔ عورت کی چُپ ہی اس کا گھر بساتی ہے۔’

بس جب سب ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس مسئلہ کا حل ’عورت کی چپ‘ میں ہے تو میرے لاکھ چِلانے کے بعد میں وہی ہوا جو شاید ہمارے معاشرے میں بہت سارے گھروں میں ہوتا ہے۔

میری بہن کو صبر کی تلقین کی گئی۔ ایسے موقع پر چپ رہنے کے مشورے دیے گئے اور ایسی کوئی بات نہ کرنے کہا گیا جو اس کے شوہر کے غصے کا باعث بنے۔


مجھے معاف کیجیے گا اگر آپ نے ابھی تک ڈارلنگز فلم نہیں دیکھی کیونکہ میری وجہ سے آپ کو اس کی کہانی کے بعض سپائیلرز مل سکتے ہیں۔

ڈارلنگز فلم میں حمزہ ہر بار اپنی بیوی کو پیٹنے کے بعد یہی کہتا تھا کہ دراصل اس کی شراب اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کی بیوی بھی کئی برسوں تک یہی سوچ کر مار کھاتی رہی کہ شاید اس کے شوہر کی حیوانیت کے پیچھے اس کی شراب ہے۔

لیکن پھر ایک دن جب اس نے بغیر کسی نشے یا شراب کے اپنی بیوی کو اتنا مارا کہ وہ مرتے مرتے بچی تب جا کر اسے یقین ہوا کے اس کی وجہ شراب نہیں، وہ خود ہے۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں کم سے کم ایک بار گھریلو تشدد کا شکار ضرور ہوتی ہے۔

میں سوچتی ہوں کہ گھریلوں تشدد کا شکار ہونے والی یہ عورتیں جب پہلی بار اپنے گھر والوں کو یہ بتاتی ہوں گی کہ ان کے شوہر نے ان پر ہاتھ اُٹھایا تو شاید انھیں بھی یہی سننے کو ملتا ہوگا کہ ’ایسا مرد نہیں کرتا بلکہ اس کا غصہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مرد کو تو غصہ آتا ہے۔ تم بس چپ رہنا۔ گھر ایسے ہی بستے ہیں۔‘

آخر کب ہمارے معاشرے میں لوگ یہ بات سمجھیں گے کہ جب مرد پہلی مرتبہ عورت ہر ہاتھ اٹھاتا ہے اور وہ جب اس بارے میں اپنے خاندان والوں اور دوستوں کو بتاتی ہے تو ان کا راویہ ہی بات کا تعین کرتا کہ آیا وہ اس تکلیف دہ رشتے میں رہے گی یا اسے دوبارہ ہونے سے روکے گی۔

میں سوچتی ہوں کہ اس رات میری چھوٹی بہن نے کتنی امید کے ساتھ ہمیں یہ بتانے کی ہمت کی ہوگی کہ شاید اس کی پڑھی لکھی، باشعور اور خودمختار بہنیں اسے سمجھیں اور مشکل فیصلہ لینے میں اس کا ساتھ دیں۔

میں سوچتی ہوں کہ آئندہ اگر اس کے شوہر نے اس پر ہاتھ اٹھایا تو کیا وہ ہمیں یہ بتانے کی ہمت، یا سچ کہیں تو حماقت کرے گی؟

میں سوچتی ہوں اگر میری بہن کے شوہر نے پھر ہاتھ اٹھایا تو؟ کیونکہ سب کہتے ہیں کہ مرد کا ہاتھ ایک بار اُٹھ جائے تو پھر رُکتا نہیں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments