بچے، باجے اور بابے


یوم آزادی اسی روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا جیسے وہ جنگ آزادی ہو۔ اب کئی برس سے ہم یوم آزادی اور چاند رات وغیرہ آتے ہی چھپ جاتے ہیں اس لیے عینی شہادت تو ممکن نہیں مگر سوشل میڈیا پر بہت سے بابے احتجاج کرتے پائے گئے ہیں کہ بچوں نے باجے بجا بجا کر اظہار آزادی کیا۔ وہ بچوں اور باجوں سے شدید نالاں دکھائی دیتے تھے۔

ہم نے اس معاملے پر غور کیا تو یہ جانا کہ جو کم عمر بزرگ اس بات پر اعتراض کر رہے ہیں کہ بچہ لوگ جشن آزادی میں شور دار باجے بجا کر سکون غارت کر رہے ہیں، انہیں وہ دور یاد ہی نہیں جب بچہ لوگ دل کی دھڑکن روک دینے والے پٹاخے بجا کر جشن آزادی مناتے تھے۔ ثقہ بزرگ انتہائی متانت سے گلی میں چل رہے ہوتے تھے کہ اچانک عین ان کے قدموں کے بیچ ایک ننھا سا تعویذ سا آ کر گرتا اور تقریباً اتنے ہی شور دار دھماکے سے پھٹتا جتنا ایک ننھے منے سے ایٹم بم کو زیب دیتا ہے۔ اور پھر وہ ثقہ بزرگ تقریباً اتنا ہی اونچا جمپ لگاتے جتنا بلند ایٹمی بادل ہوتا ہے۔ زمین پر واپس آنے کے بعد ان بزرگ کے الفاظ کی تابکاری سے فضا اتنی ہی مسموم ہو جاتی جتنی ایک واجبی طاقت کے نیوک سے ہونی چاہیے۔

یا پھر کوئی شخص صاف ستھرے کپڑے پہنے جا رہا ہوتا۔ اچانک ایک دھماکہ ہوتا، اور پھر مسلسل گولیوں کی تڑتڑاہٹ شروع ہو جاتی۔ وہ شخص جان بچانے کو زمین پر لیٹ جاتا اور سر بازوؤں میں چھپا لیتا۔ فائرنگ بند ہونے کے بعد وہ آہستہ آہستہ سر بلند کرتا اور جاننے کی کوشش کرتا کہ اس اچانک حملے میں کتنے شہری شہید ہوئے۔ شہدا تو دکھائی نہ دیتے مگر چند غازی بچے نظر آ جاتے جو کسی ایک بچے کو اعلیٰ درجے کے کلاشنکوف پٹاخے چلانے پر داد دیتے نظر آتے۔ وہ کپڑے جھاڑتا اور خفیف ہو کر بچوں کو برا بھلا کہتا واپس اپنے گھر کی راہ لیتا تاکہ منہ دھو کر دوبارہ بابو بن جائے۔

اس زمانے میں پاجامے کا رواج تو ختم ہو چکا تھا مگر شلوار اور دھوتی پہنے جاتے تھے۔ ایسے میں اگر کوئی معزز بابا دھوتی پہنے بیٹھا ہو اور اچانک سر سر سر کی آواز سنائی دے اور اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی سلگتی شرلی اس کی دھوتی میں داخل ہو جائے تو شرلی بجھنے اور دل کی دھڑکن معمول پر آنے کے دورانیے میں بچوں کے درجات وہ جیسے بلند کرتا، آج کے بچے وہ سن لیں تو اپنے بزرگوں پر تاسف کریں کہ ان کے بڑوں نے گالم گلوچ سیکھنے پر ان کی گوشمالی کیوں نہیں کی۔

بچوں سے بات کچھ اوپر چلے تو ان نوجوانوں تک پہنچے جنہیں تازہ تازہ موٹر سائیکل ملی ہوتی۔ ان کا جشن آزادی منانے کا ایک ہی انداز تھا۔ یعنی تیرہ اگست کی شام کو موٹر سائیکل کا سائلنسر نکالا جائے اور اگلے چوبیس گھنٹے تک موٹر سائیکل کو خوب رواں رکھا جائے۔ سستے زمانے تھے۔ تیل کی قیمت کم تھی۔ موٹر سائیکل کو دل کھول کر یوں ریس دی جاتی کہ آج کے دس باجے ایک موٹر سائیکل کے سامنے شرمندہ ہوں۔

بہرحال، وہ بچے ناسمجھ تھے۔ انہیں عقل شعور نہیں تھا۔ سوچتے نہیں تھے کہ ان کے اعمال و افعال کی وجہ سے دوسرے کتنے عذاب میں پڑتے ہیں۔ انہیں کیا برا بھلا کہیں۔ پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ وہ بچے اب بابے بن چکے ہیں۔ انہیں اب بھی عقل شعور نہیں ہے۔ سوچتے نہیں ہیں کہ ان کے اعمال و افعال کی وجہ سے دوسرے کتنے عذاب میں پڑتے ہیں۔ وہ کسی بچے کو باجا بجاتا پاتے ہیں تو اپنے بچپن کی متذکرہ بالا حرکتیں بھول کر ساز کے ساتھ اپنی آواز ملاتے ہیں اور باجے سے زیادہ زور سے بجنے لگتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments