قومی مکالمہ اور آزادی صحافت پر قدغن


حکومت نے ایک طرف ایک نجی ٹیلی ویژن چینل اے آر وائی پر پابندی کا حکم جاری کروایا ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم آزادی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے قومی مصالحت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بنیادی طور سے یہ دو متضاد طریقے ہیں۔ حکمران اگر مخالف میڈیا پر پابندی لگانے کو ہی اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھیں گے تو جمہوری روایت پر ان کے یقین کے بارے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

پاکستان میں قومی مکالمہ ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ایک دوسرے کی بات سننے اور اس پر غور کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم آزادی پر قوم سے خطاب میں ’قومی ڈائیلاگ‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت ان کوششوں کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور سے وزیر اعظم کی تقریر کو ’پھسپھسی‘ سمجھا گیا ہے جس میں تحریک انصاف کی تقریر جیسا ’جوش و ولولہ‘ اور عوام کو متاثر کرنے والے نعرے شامل نہیں تھے۔ تاہم وزیر اعظم کی تقریر دو حوالے سے موجودہ قومی سیاسی منظر نامہ میں اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو اس تقریر میں انہوں نے الزام تراشی سے گریز کیا، دوسرے ٹھوس انداز میں قومی مکالمہ اور میثاق معیشت کی تجاویز پیش کی ہیں۔ ملکی سیاست دان وزیر اعظم کے ان دو نکات پر باہمی مواصلت کی بنیاد رکھ سکیں تو پاکستان موجودہ سنگین سیاسی بحران سے باہر نکلنے کی امید کر سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے اگرچہ وزیر اعظم کی طرف سے میثاق معیشت کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت کی عوام دشمن اور عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کو کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی تصادم کے موجودہ ماحول میں تحریک انصاف کے کسی نمائندے سے اس سے مختلف بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت نے جو معاشی حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کی بنیاد تحریک انصاف ہی کے دور حکومت میں رکھی گئی تھی۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں منڈی کے نرخوں کے مطابق اضافہ کرنے کا تحریری وعدہ بھی سابقہ حکومت نے کیا تھا جسے ملک میں پیدا ہونے والے غیر معمولی سیاسی حالات کی وجہ سے نظرانداز کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بجٹ تک منجمد کر کے سیاسی مخالفین کے لئے مشکل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن پاکستان جن معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، اگر تحریک انصاف کو دوبارہ اقتدار مل جائے تو اسے بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی فوری معاشی منصوبے استوار کرنا پڑیں گے۔ شہباز حکومت نے بھی یہی اقدام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملہ کو ایک دوسرے کو سیاسی طور سے نیچا دکھانے کی بنیاد بنانے سے نہ تو کسی سیاسی پارٹی کو کوئی فائدہ ہو گا اور نہ ہی ملک کو مستقبل کی ٹھوس منصوبہ بندی کے لئے تیار کیا جا سکے گا۔

میثاق معیشت کا تصور بنیادی طور پر اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ملک کو کثیر غیر ملکی قرضوں، پیداواری صلاحیت میں کمی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے منڈیوں میں پیدا ہونے والے جس اضطرار کا سامنا ہے، سب سیاسی گروہ اس سے نمٹنے کے لئے چند بنیادی اصولوں پر متفق ہوجائیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران پوری قوم یہ تماشا دیکھتی رہی ہے کہ پہلے موجودہ حکمران اتحاد تحریک انصاف کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے منڈی میں بے یقینی اور سرمایہ کاری کے لئے مشکلات پیدا کرتا رہا جن سے تحریک انصاف کی حکومت نمٹنے کی اپنی سی ناکام کوشش کرتی رہی۔ تاہم قومی مفاہمت کی کمی اور پارلیمنٹ میں مل جل کر کام کرنے کا رویہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے بحران اور پریشان خیالی کی کیفیت ہی دکھائی دی۔ سرمایہ کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کون سی پارٹی کیا سیاسی دعوے کرتی ہے، اسے محفوظ اور قابل اعتبار حالات درکار ہوتے ہیں تاکہ سرمایہ دار اپنی سرمایہ کاری سے مناسب منافع وصول کرنے کی امید کرسکیں۔ جس ملک میں سیاسی عدم اعتماد کی ویسی صورت حال موجود ہوگی جس کا سامنا اس وقت پاکستان کر رہا ہے تو سرمایہ کاری کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے بھی حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ بعض قومی ترجیحات پر اتفاق رائے کے بغیر تحریک انصاف کی مخالف پارٹیاں اس کے لئے بھی حالات کار کو موافق نہیں بننے دیں گی۔

ملکی سیاسی پارٹیوں کو بہر صورت اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ پاکستان کا آئین ایک پارلیمانی نظام حکومت تجویز کرتا ہے۔ یہ ایک فرد کی حکومت کا داعی نہیں ہے۔ ملکی سیاست کے بیشتر مسائل کی بنیاد یہی ہے کہ جب وزیر اعظم تمام طاقت اپنے ہاتھ میں جمع کرے گا اور مخالف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعاون، مکالمہ اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو ویسا ہی بحران پیدا ہو گا جس کا اس وقت پاکستان سامنا کر رہا ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف میں شخصیت پرستی کا جو مزاج استوار کیا گیا ہے، اس کے تحت یہ پارٹی صرف عمران خان کی کہی ہوئی باتوں کوہی درست اور قابل عمل سمجھتی ہو لیکن عملی طور سے بہتر نظم حکومت کے لئے یہ رویہ وسیع تر قومی مفاد کے برعکس ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگانے، سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اس کی بات سننے سے انکار اور پارلیمنٹ میں اہم قومی مسائل کا مل کر حل تلاش کرنے سے گریز کیا تھا۔ قوم و ملک کو اس پالیسی سے پہنچنے والے نقصانات سب کے سامنے ہیں لیکن خود تحریک انصاف کو بھی اس کی قیمت تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ عمران خان اگر پارلیمانی پارٹیوں کو احترام دیتے اور اپوزیشن کو مکمل طور سے دیوار سے نہ لگایا جاتا تو شاید کبھی بھی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہو پاتی۔ ماضی قریب میں تحریک انصاف کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ بھی رہی ہے کہ وہ اپنی اتحادی پارٹیوں کو بھی مناسب احترام اور فیصلوں میں ضروری شراکت داری نہیں دے سکی۔ یہ سب معاملات پارلیمانی نظام کا لازمی حصہ ہیں لیکن عمران خان اپنی انفرادی اتھارٹی کی وجہ سے اسے مسترد کرتے رہے ہیں۔ اور جب انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو کسی مناسب سیاسی حکمت عملی کے بغیر ہی انہوں نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دے کر موجودہ حکومت کو ’فری ہینڈ‘ فراہم کر دیا جو اب اپنی مرضی کی قانون سازی کرنے میں آزاد ہے اور اسے پارلیمانی سطح پر کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔

عمران خان اگر اسی طریقے کو قومی مسائل کا حل سمجھتے ہیں تو انہیں مان لینا چاہیے کہ وہ پارلیمانی نظام حکومت میں کبھی بھی کامیاب حکمران نہیں بن سکتے۔ اس صورت میں انہیں ایک بار پھر انتخابات کا مطالبہ کرنے اور پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا خواب دیکھنے کی بجائے ملک کے آئین کو تبدیل کروانے اور کوئی ایسا نیا آئینی انتظام متعارف کروانے کے لئے کام کرنا چاہیے جس میں فرد واحد ہی تمام اختیارات کا مرکز ہو اور اسی کے اشارے پر سب فیصلے ہو سکیں۔ اس میں کسی کے عقل مند یا کم عقل ہونے کا سوال نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام شخصی ذہانت کی بجائے اجتماعی کاوش کو ترجیح دیتا ہے اور اسے ہی قومی مسائل حل کرنے کا بہترین راستہ بتاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ آئینی انتظام میں اسی طریقہ کار کو ملک کے نظام حکمرانی کے طور پر تجویز کیا گیا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم شہباز شریف کے قوم سے خطاب میں قومی مکالمہ کی تجویز باہمی مشاورت سے معاملات طے کرنے کے آئینی طریقہ کے مطابق ہے۔

اس دوران البتہ حکومت نے ملک میں میڈیا کنٹرول کرنے کے جن ہتھکنڈوں کو اختیار کیا ہے، ملک کا آئین ان کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ شہباز شریف ایک طرف قومی مکالمہ کے ذریعے مل جل کر معاملات طے کرنے کی تجویز دے رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی حکومت نے پہلے اے آر وائی کا این او سی منسوخ کیا اور پھر پیمرا کے ذریعے اس ٹی وی چینل پر پابندی لگوانے کا طریقہ اختیار کیا۔ آزادی رائے کو دبانے والے اقدامات کرنے والی حکومت سے کسی جمہوری عمل میں سنجیدہ ہونے اور باہمی احترام کا ماحول پیدا کرنے کی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ کسی بھی میڈیا کو ملکی قوانین توڑنے کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اگر کوئی ادارہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو عمومی طریقہ کے مطابق ہی کارروائی ہونی چاہیے۔ وزارت داخلہ یا پیمرا جیسے ادارے کسی ایک پروگرام میں کی گئی ایک گفتگو کو بنیاد بنا کر کسی ٹیلی ویژن چینل کو بند کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ آزادی رائے پر براہ راست حملہ تصور ہو گا۔ اس پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا احتجاج جائز اور قابل فہم ہے۔

شہباز گل کے علاوہ اے آر وائی کے خلاف کارروائی کے ذریعے شہباز حکومت درحقیقت عسکری اداروں کو خوش کرنے کا اہتمام کرنا چاہتی ہے تاکہ ملکی سیاست کے اگلے مرحلے میں اسے ان اداروں کی حمایت حاصل ہو اور طاقتور حلقوں کو باور کروایا جا سکے کہ یہی پارٹیاں دراصل مستقبل میں ان کے مفادات کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ اب حالات و واقعات کی ترتیب نے واضح کیا ہے کہ سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت کے خلاف وسیع تر رائے موجود ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اس رائے کی بنیاد پر عسکری اداروں کا سیاست میں کردار محدود کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے اور آرمی چیف کی تقرری کے معاملہ کو اہم ترین قومی معاملہ بنانے جیسا رویہ بھی تبدیل ہونا چاہیے۔ سیاسی لیڈروں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ افواج پاکستان تک یہ پیغام دو ٹوک انداز میں پہنچایا جائے کہ انہیں اپنے وقار اور عزت کی خاطر اب عوامی سیاسی معاملات میں کردار سے تائب ہونا پڑے گا ورنہ فوج اور اس کی قیادت پر کسی سیاسی قیادت ہی کی طرح نکتہ چینی دیکھنے میں آتی رہے گی جس سے اس ادارے کا امیج بھی متاثر ہو گا اور اس کی غیر جانبداری بھی مشکوک رہے گی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بجا طور سے آزادی رائے کے لئے مہم چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے متعدد ٹویٹ پیغامات میں بعض صحافیوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا ذکر کیا ہے اور اس طریقہ کو جمہوری روایت کے خلاف قرار دیا ہے۔ آزادی صحافت و آزادی رائے کے لئے عمران خان کے دلائل کو محض یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں مخالف میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی تھی۔ اب عمران دوست میڈیا کے خلاف ویسے ہی اقدام کر کے کوئی بڑا جمہوری یا قومی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ سب لیڈروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد آزاد و خود مختار میڈیا ہی ان کی سب سے بڑی قوت بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments