”آنسوؤں کی پگڈنڈی“: امریکہ میں نیٹیو (مقامی) امریکنوں کی نسل کشی


”ہم خاصے طویل وقت تک ایک نئے راستے کی جانب چلتے رہے۔ اپنی جگہ (آبائی گھروں ) کو چھوڑنا بہت برا لگتا ہے۔ عورتیں بین کرتیں، اداسی کے نالے۔ بچوں کی آہ و بکا، اور بہت سے مرد بھی روتے، مغرب کی جانب جا رہے ہیں۔ دن گزرتے رہے اور ( راہ میں ) لوگ مرتے رہے۔ جنہیں ہم راستے میں دفناتے رہے۔“

(آنسوؤں کی پگڈنڈی پہ چلنے والے ایک انسان کے الفاظ)

شاید ہم سب کی زندگیوں میں بھی ایک نہ ایک ایسی پگڈنڈی ضرور ہوتی ہے کہ جس کی آبیاری ہمارے خون کے آنسوؤں نے کی ہو۔ لیکن آج جس پگڈنڈی کی میں بات کر رہی ہوں اس کو امریکہ میں آباد کئی ہزار مقامی باشندوں ”انڈین امریکنوں“ کے خون نے سینچا۔ یہ وقت تھا کہ جب مختلف خطوں سے آ کر امریکہ بسنے والے سفید فام یورپین، بظاہر متمدن اور جدید دنیا کے طور طریقوں سے واقف، نوآبادی نے اپنا حق سمجھا کہ صدیوں سے بسی مقامی آبادی کو ان کی زمین سے بیدخل کیا جائے اور لوٹ مار مثلاً ان کے مویشی چرا کے، گھر جلا کے، عورتوں کی عزتوں اور انکے گھر لوٹ کے انہیں ہراساں اور ان کے وسائل پہ ڈاکا مارا جائے۔ اور یوں ان کا انخلا ہو سکے۔ طاقت کی ایسی ہی جنگ ایسا ہی جیسا آج ہم فلسطین، کشمیر اور دنیا کے اور ممالک میں دیکھتے ہیں۔

یہ سلسلے تو کئی سو سال سے جاری تھا لیکن انہوں نے اپنے اس شرمناک مقاصد اور سفاکانہ عزائم کو قانونی شکل (انڈین ریموول یا انخلا کے ایکٹ1830ء) سے دی۔ جس کے تحت انہوں نے مقامی بستی کے بچوں، عورتوں اور مردوں کو زبردستی بے دخلی پہ مجبور کیا کہ وہ جنوب مشرق میں اپنی پرکھوں کی زمین کو چھوڑ کے کئی سو میل نشیب و فراز کا راستہ پیدل طے کریں۔ تاکہ اس انخلا کے بعد سفید نژاد یورپین کی آباد کاری بغیر کسی مزاحمت کے ہو سکے۔

1838ء میں سولہ ہزار نیٹو امریکنز نے بارہ سو میل کا فاصلہ طے کیا جن میں سے کم ازکم چار ہزار سے دس ہزار راستے میں ہی قحط، بھوک، سرد موسم اور بیماریوں سے مر گئے۔ سفید نژاد نسل کی آبادی کو وسعت کی غرض سے نسل کشی کا یہ سلسلہ اٹھارہ امریکی صدور کے عہد تک جاری رہا۔ علاقوں کی توسیع ہوتی رہی۔ اور اس کے ساتھ زبردستی بے دخلی، اموات اور زیادتی کا سلسلہ جاری رہا۔

دنیا میں ترقی اور کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے ملک امریکہ کی تاریخ ہزاروں افراد کے خون سے آلودہ ہے۔ وہ چاہے دنیا پہ مسلط غیر ضروری جنگیں ہوں، افریقہ سے زنجیروں میں جکڑ کر اور جہازوں میں بھر کے، غلامی کی غرض سے لائے ہوئے لاکھوں افراد ہوں، یا یورپ سے امریکی زمین پہ آباد کاری کی غرض سے ان مقامی لوگوں کے حقوق غصب کرنے کی کرب و بلا کی المناک داستانیں۔ اس ملک کی تاریخ لاکھوں بے گناہ کے خون اور حق تلفی کی دلسوز داستانوں سے رنگی ہوئی ہے۔ جس کا محرک رنگ و نسل، مذہب، زبان اور جنس کی تفریق اور طاقت کی بنیاد پہ کمزوروں پہ تسلط اور یوں لاکھوں افراد کی نسل کشی کے جرم کا ارتکاب ہے۔

1830ءکی ابتدائی دہائی میں جارجیا، مینیسوٹا، البامہ، نارتھ کیرولینا اور فلوریڈا کی لاکھوں ایکڑ کے خطے پہ مقامی باشندے یا نیٹو امریکنز آباد تھے جن کی ایک خاص ثقافت، زبان اور روحانیت پہ مبنی مذہب تھا۔ جب یورپین ان مقامی باشندوں کے قبیلوں مثلاً چرویکی، چیکاسو، سیمینول، چاک ٹو میں بسے تو ان قبیلوں نے اپنی مہمان نوازی کی روایات کے مطابق یورپین کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ انہیں کاشتکاری، مویشی، شکار کے اوزار، جنگیں لڑنے اور تجارت میں مدد دی۔ مگر اس کے عوض نیٹیو امریکنز کو چیچک، خسرہ، انفلوئنزا اور چکن پاکس جیسی بیماریاں، ان کے مویشیوں کی چوری، غلامی، زبردستی ان کے گھروں اور اپنی زمین سے بے دخلی ملی۔ مقصد یہ تھا کہ اس خطہ میں بسی نسلی طور پہ کمتر مقامی آبادی کے بجائے ”سفید نژاد نسلی برتر“ یورپین کی آباد کاری کی جا سکے۔

اس گھناونے عزائم کی تکمیل کو صدر اینڈریو جیکسن نے نسلی تفریق کے قانون کو نافذ کر کے مقامی آبادی کو مجبور کیا کے وہ ”انڈین کے لیے مختص محدود علاقے“ اوکلاہاما میں نئے سرے سے آباد ہوں جو مسسیسپی دریا کے پار تھا۔ پیدل سفر کی صعوبتوں سے آغشتہ میلوں لمبا یہ سفر بھوک، بیماریوں، کرا ہوں اور اموات پہ مبنی تھا۔ روتے ہوئے اپنے پیاروں کے لاشے آنسوؤں کی اس پگڈنڈی پہ دفناتے اور رخصتی کی کرب و بلا کی داستانیں نسل در نسل دھرائی گئیں۔ ایک آپ بھی سنیں۔

”آنٹی چن ڈیانواش میری دادی کی بہن تھیں اور وہ آنسوؤں کی پگڈنڈی پر جارجیا سے آئی تھیں۔ جارجیا سے نکلنے کے فوراً بعد اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور اسے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ لڑنے کے لیے چھوڑ دیا، ایک جو چل نہیں سکتا تھا۔ آنٹی چن نے ننھے کو اپنی پیٹھ پر ایک پرانی شال سے باندھا، اس نے ایک بچے کو اپنی بانہوں میں لیا اور دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے۔ دو بڑے بچے بہت آگے جانے سے پہلے ہی مر گئے اور چھوٹا مر گیا اور آنٹی چن نے ایک ٹوٹا ہوا چاقو لیا اور ایک قبر کھود کر چھوٹی لاش کو آنسوؤں کی پگڈنڈی کے کنارے دفن کر دیا۔“

آج کی دنیا ٹیکنالوجی سے لیس ہے لہٰذا دنیا جارج فلائیڈ جیسے افریقی نسل امریکی کا قتل ایک سفید فام پولیس کے ہاتھوں ہوتے ہوئے دیکھ سکی۔ سیل فون میں بنائی ایک ویڈیو نے نسلی برتری کے مالیخولیا میں مبتلا افراد کا رویہ دنیا کے سامنے عیاں کیا۔ مگر صدیوں سے رائج اس تفاخر اور سفاک رویوں کی گواہی کے لیے کوئی فون ویڈیو نہیں بلکہ تاریخ میں رقم وہ باب ہیں جن کے ذکر پہ انسانیت ہمیشہ نوحہ کناں اور شرمسار رہے گی۔

یقیناً نیٹو امریکنوں کی اموات بیسویں صدی کی سب سے بڑی ”نسل کشی“ ہے۔ اپنے اس جرم کی پاداش امریکی حکومت مالی تاوان کے صورت عرصے سے ادا کر رہی ہے لیکن اس المیہ کے دیرپا اثرات نسلوں تک موروثیت کی صورت منتقل ہوئے ہیں۔ ( اس کی تفصیل علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ )

ہماری ذمہ داری کسی بھی ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ایک شعری احتجاج ملاحظہ فرمائیں۔ ڈائینا بروس کی نظم کا ترجمہ اردو کی نامور شاعرہ نسیم سید نے کیا ہے۔

میری انگلیاں برچھی تراش رہی ہیں
اب میری طرف دیکھو!
اور بتاؤ!
کہ میرے لئے
میرے مستقبل کے پاس کیا ہے؟
ہم ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں
کہ ”ہم ٹھیک ہیں“
لیکن ہماری روحوں کے
کھلے ہوئے زخموں سے
لہو بہہ رہا ہے
ہم سب مل کے
اپنے اپنے زخموں کو سینے سے لگائے
چپ چاپ انہیں سہلاتے رہتے ہیں
لیس کورٹ اور ریلز کی برف پگھل رہی ہے
کینڈین گیز گھروں کی طرف لوٹ رہی ہیں
واشنگٹن سکوائر پارک میں
درختوں پر سبزہ پھوٹ رہا ہے
اور سبز جیکٹ والے فوجی
اپنی طاقت کا اشتہار با نٹ رہے ہیں
وہ ایک دوسرے سے سر گوشی کرتے ہیں
”جوڑ جوڑ ڈھیلے پڑ چکے ہیں“
” دیکھو، یہ جوڑ جوڑ سے ڈھیلے پڑ چکے ہیں“
اور میں بنچ پر بیٹھی
سو رج کے نکلنے کا انتظار کر رہی ہوں
مجھے اپنا گھر یاد آ رہا ہے
میں اپنے کھیتوں کی ہوا سونگھ رہی ہوں
میری کلائی قید با مشقت جھیل رہی ہے
مگر میری انگلیاں بر چھی تراش رہی ہیں
قلم کی برچھی
مجھے اس برچھی سے
اپنے لوگوں کی جنگ لڑنی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments