دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا


وطن عزیز میں ان دنوں اقتدار کی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے اور اس وقت تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اپنی جھوٹی انا کو قائم رکھنے کے لیے برسر پیکار ہیں۔ اقتدار کی ہوس اور طاقت کے حصول نے ان کو اندھا اور بہرہ کر دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو عوام کی حالت زار اور آہ و فغاں دکھائی اور سنائی نہیں دیتی۔

اس وقت ملک کا ہر ادارہ زوال پذیر ہے اور ملک دیوالیہ ہونے کے درپے ہے۔ عوام کا معاشی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی استحصال کیا جا رہا ہے۔

ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ اشیاء خوردونوش، پٹرول، ڈیزل غرض یہ کہ ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے لیے جسم اور جاں کا رشتہ قائم رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں آئے روز ہوشربا اضافہ کیا جاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ اتنی شدید گرمی کے موسم میں یہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ اگر یہ عاقبت نا اندیش حکمران اپنی ذات اور مفادات کے حصار سے باہر نکل کر ملک اور قوم کی بہتری اور ترقی کے لیے سوچتے تو آج ملک میں کئی چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر ہو چکے ہوتے جو ملک میں بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں آب پاشی کے نظام میں بھی مددگار ثابت ہوتے۔

ہمارے لیے یہ بھی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ پاکستان کو ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم درآمد کرنی پڑتی ہے۔

پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ سالوں میں یہ شرح کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس میں کمی کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

ملک میں قدرتی آفات سے بچاؤ کا کوئی موثر اور مربوط نظام نہیں ہے۔ اگر بارش وقت پر نہ ہو تو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر بارش زیادہ ہو جائے تو پھر سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر سال عوام کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں کسی بھی شعبے میں توازن نظر نہیں آتا۔ جس قدر مہنگائی کی جاتی ہے اس قدر تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ جس تعداد سے ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اس تناسب سے نہ تو وسائل بڑھائے جا رہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہی ناقص منصوبہ بندی اور نا عاقبت اندیشی مزید مسائل اور مصائب کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔

اس مملکت خداداد کو معرض وجود میں آئے ہوئے 75 سال ہو چکے ہیں اور اب تک کثیر آبادی کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہو سکیں۔ عوام کو ہمیشہ کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے بہلایا اور پھسلایا گیا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکا۔

بنگلہ دیش جو ہم سے 1971 میں علیحدہ ہوا تھا۔ جس کے بارے میں ہمارے کچھ حکمران کہتے تھے کہ اس ملک میں پٹ سن، چاول اور مچھلی کے علاوہ ہے کیا؟ آج وہی بنگلہ دیش ہم سے ہر شعبے میں آگے نکل گیا ہے اور دنیا کی 33 ویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔

ہمارے ”راہنماؤں“ اور پالیسی سازوں کی نا اہلیوں، بدعنوانیوں اور ناجائز ذاتی مفادات کے حصول کے باعث یہ ملک ترقی کرنے کے بجائے بدحالی اور تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ عیار و مکار اور دھوکے باز برسوں سے جونکوں کی طرح عوام کا خون چوس چوس کر اپنے اقتدار اور محلات کی بنیادیں مضبوط کر رہے ہیں۔

مرزا غالب نے شاید انہی کے لیے کہا تھا کہ
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

لیکن اب عوام پر لازم ہے کہ عقل اور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان بازی گروں کا محاسبہ کریں۔ ان کا آلہ کار نہ بنیں اور ان سے مزید دھوکا نہ کھائیں۔ اپنے حقوق، آزادی، ترقی اور خوشحالی کے لیے جد و جہد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).