’‘ سرخ میرا نام ”ترکی کے معروف ناول نگار اورحان پاموک کا تیسرا ناول ہے جو 1998 ء میں اولاً ترکش زبان میں شائع ہوا بعد ازاں یہ انگلش اور پھر اردو میں ترجمہ ہوا۔ اسی ناول کی بنیاد پر اورحان پاموک کو نوبل انعام ملا۔ یہ ناول ایک طرف تو سولہویں صدی کے استنبول میں مذہبی شدت پسندی کی کہانی ہے اور دوسری طرف سولہویں صدی کی سلطنت عثمانیہ میں مختصر تصویروں کے مصوروں یعنی مینی ایچر مصوروں کے چشمک کے متعلق ہے۔ اس ناول نے پاموک کی بین الاقوامی شہرت قائم کی۔

ناول کی بنت کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ہر باب میں ایک مختلف کردار کہانی بیان کرتا ہے جس کے عنوانات کچھ یوں ہیں :میں مر چکا ہوں، میں قرہ ہوں ؛میں قرہ کا خالو، انشتے افندی ہوں ؛میں انشتے کی بیٹی، شکورے ہوں، میں ایک سگ ہوں، مجھے قاتل کہا جائے گا، میں اورحان ہوں، میں ملازمہ ایستھر ہوں، میں ایک درخت ہوں، مجھے تتلی کہتے ہیں، مجھے بگلا کہتے ہیں، مجھے زیتوں کہتے ہیں، میں طلائی سکہ ہوں، میں موت ہوں، میں ایک گھوڑا؛ یہ میں ہوں، استاد عثمان، ہم دو درویش ؛ میں، ایک عورت۔

ناول کا آغاز اس فقرے سے ہوتا ہے : میں اب ایک لاش کے سوا کچھ نہیں، کنویں کہ تہ میں پڑا ایک مردہ وجود۔ اگرچہ آخری سانس لیے اور میرے دل کی دھڑکن بند ہوئے خاصی دیر ہو چکی ہے لیکن سوائے اس بدبخت قاتل کے کسی کو خبر نہیں کہ مجھے ہوا کیا تھا۔ مقتول کے مطابق وہ سلطان کے کتب خانے کا سب سے بہترین مصور تھا۔ اس کا خیال ہے کہ اس کی ہمسری کا کوئی دعوے دار نہ تھا۔ مقتول کی ذمہ داری کتابوں کو مصور کرنا اور مختصر تصویریں بنانا، جن میں کتابوں کے حاشیوں کی تزئین کرنا، انھیں پتوں، شاخوں، پھولوں اور پرندوں کے زندگی بھرے نمونوں کے رنگوں سے مزین کرنا تھا۔ سرخ میرا نام کا مطلب بھی در اصل سرخ رنگ ہے۔

اس ناول کا دوسرا کردار قرہ ہے جو بارہ سال کی غیر حاضری کے بعد استنبول میں آیا ہے اور اس کے کہنے کے مطابق وہ استنبول میں یوں داخل ہوا جیسے نیند میں وہ چلا جا رہا ہو۔ وہ اپنی خالہ زاد انشتے افندی کی بیٹی کی محبت میں بے بسی کی حد تک گرفتار تھا۔ اس کی عمر اب چھتیس برس ہو چکی ہے۔ اس کی جلا وطنی کے بارہ سالہ دور میں اس کے کئی دوست اور رشتے دار دنیا سے گزر گئے تھے۔ بلندی پر دکھائی دیتے قبرستان میں جا کر اس نے اپنی ماں اور اس کی عدم موجودگی میں وفات پا جانے والا چچاؤں اور ماموؤں کے لیے فاتحہ پڑھی۔ وہ رو رہا تھا لیکن کیوں؟ کیا اس لیے کہ وہ اس شہر میں اتنے برس بعد اپنی زندگی کا آغاز نو کرنے والا تھا یا اس لیے کہ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے سفر کے اختتام تک پہنچنے والا ہے؟

وقت کے سلطان نے خطے کے مشہور منی ایچر مصوروں کے ایک گروہ کو ایک ایسی مصور کتاب تخلیق کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے جو اس کی عظمت کو بیان کرے۔ ان کا کام یورپی انداز میں کام کو روشن کرنا تھا۔ لیکن چونکہ علامتی فن کو اسلام کی توہین سمجھا جا سکتا ہے، اس لیے یہ واقعی ایک خطرناک تجویز تھی۔ اس لیے یہ طے تھا کہ حکمران اشرافیہ کو اس منصوبے کے مکمل دائرہ کار یا نوعیت کا علم نہ ہو۔ اس وقت خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جب ایک منتخب منی ایچر مصور غائب ہو جاتا ہے۔

انشتے افندی بھی قتل ہو جاتا ہے اور قرہ شکورے سے قاضی کو کچھ رقم دے کر نکاح کر لیتا ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے لیکن اس کا خاوند سالہا سال سے غائب ہے وہ جنگ پر گیا تھا اس کے بعد واپس نہیں آیا۔ اس کی سہاگ رات کو اسے استاد عثمان کی سرکردگی میں انشتے کے قاتل کو ڈھونڈھنے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جب وہ سلطان کے خفیہ خزانے تک پہنچتے ہیں تا کہ وہاں موجود مصوری کے خزانے سے وہ کڑی ڈھونڈیں جس سے قاتل کا پتہ چل سکے۔ اس کے بعد وہ تتلی، بگلا اور زیتون سے تفتیش کرتا ہے۔

ناول کی بنت کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ناول میں سسپنس کو برقرار رکھنے کی بجائے آرٹ کے مقصد سے متعلق مختلف فلسفیانہ بحثوں کا اہتمام کرنا ہے یا شاید زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامی ریاستوں اور مغربی یورپ کے درمیان مصوری کے امتیازات کو ختم کرنے کے لیے گنجائش فراہم کرنے کے لیے اسے ڈیزائن کیا جانا ہے۔

انشتے افندی کو ایسی تصاویر دلکش لگتی ہیں جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ نفرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر ، استاد عثمان صدیوں پرانی اسلامی روایات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے جس کی وہ تعظیم کرتا ہے جب کہ وہ واضح طور پراس جدید اور غیر ملکی انداز کو حقیر سمجھتا ہے۔

مجوزہ ناول دراصل آرٹ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ آرٹ پر لکھنے کے بارے میں ہے۔ دوسری طرف یہ ناول بصری تصویروں سے متعلق ہے۔ جب گھوڑے کی تصویر، جسے ناول میں کئی بار بیان کیا گیا ہے، کو اپنی آواز دی جائے تو بیانیہ میں کوئی خلل نہیں پڑتا، بلکہ تصویر کی تفصیل بیانیہ بن جاتی ہے۔ اور اس کے علاوہ، جیسا کہ تصویر بولتی ہے ؛یہ آرٹ کی اسلامی روایات سے استاد عثمان کی عقیدت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے، یہ آرٹ کے بارے میں ایک ایسا ناول ہے جس میں ایک بھی تصویر نظر نہیں آتی، ماسوا انگلش ناول کے شروع میں استنبول کے ایک نقشے کے، یہ قاری ہے جو اپنے ذہن میں ناول میں بیان کی گئی جزئیات سے اپنے تخیل میں تصویریں تخلیق کرتا ہے۔

جزوی خیالی اور جزوی فلسفیانہ پہیلی کا نام، سرخ میرا نام ہے۔ اسے جمہوری پبلیکیشنز نے اہتمام سے شائع کیا ہے اس کے آغاز میں جناب مستنصر حسین تارڑ کا ایک دیباچہ بھی موجود ہے جس میں اولا وہ نفرت اور پھر اس سے محبت کا ذکر کرتے ہیں جو اس کی تحریروں نے ان کے اندر پیدا کی۔ بنیادی طور یہ یہ ناول مینی ایچر مصوری کی تاریخ کو بیان کرتا ہے جس میں دو قتل بھی شامل جو اس مصوری کی وجہ سے قتل ہوئے۔ یہاں مردے بول رہے ہیں، جانور اور درخت باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک مشکل ناول ہے، اس ناول میں بہت زیادہ جزئیات نگاری کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک توجہ طلب ناول ہے۔ ’‘ سرخ میرا نام ”وہ ناول ہے جس نے اورحان پاموک کو ایک شناخت دی۔ اس ناول میں ایک تصوراتی دنیا تخلیق کی گئی ہے جس کی فضا بحر حال قاری پر اثر انداز ہوتی ہے۔