پاکستانی دھرتی ماں کا اپنی اولاد کے نام خط


پیارے بچو۔

یہ 1947 کی بات ہے۔ جب میں معرض وجود میں آئی۔ پچھتر برس ہو گئے۔ میں سنتی تھی کہ مجھے اپنی بہن سے مذہب کے نام پر علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ دل میں طرح طرح کے خدشات آتے تھے۔ میں نے ازل سے سن رکھا تھا بٹوارہ نفرت کی خلیج کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتا اور یہاں تو دل تب خون کے آنسو روتا تھا جب یہ تقسیم مذہب کے نام پر کی جا رہی تھی۔

میری مٹی سے اٹھائے گئے خمیر اپنی طبعی عمر پوری کر کے میرے ہی وجود میں آ کر سمو دیے جائیں تو یہ قدرت کا قانون ہے لیکن مجھ سے پیدا ہو کر جب کسی کا لہو ناحق میرے دامن پر پڑتا ہے تو تم کیا جانو ماں کو کتنا درد ہوتا ہے۔ مجھے لگتا تھا انسانیت کو یکجا کرنے والے مذہب کے نام پر تقسیم میرے وجود کو میری ہی اولاد کے خون سے نہلا دے گی اور یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا مگر کہنے لگے کہ ہم علیحدہ ہو کر اپنے اپنے مذہب کے مطابق آزادی سے زندگی گزاریں گے۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا میرے دس لاکھ بچوں کا خون بہا، نہ جانے کتنے اس تقسیم کی خلیج میں بے اماں ہوئے۔ آج بھی اپنی پہچان کو روتے ہیں۔ پہچان کا بحران بہت روح فرسا ہوتا ہے بچو۔ انسان جب خود کو نہیں پہچانتا تو خدا کو کیا پہچانے گا۔ اور سچ کہوں تو اکثر اپنی اصل پہچان چھپانے کے لیے خدا کی پہچان کا ڈھونگ رچاتے نظر آتے ہیں۔

خیر کسمساتی، سسکیاں بھرتی، ڈری سہمی وہاں رہ جانے والے اپنے بچوں کو یاد کر کر روتی یہاں آباد ہوئی۔ مائیں بچوں کے نام رکھتی ہیں لیکن یہاں میرے بچے مجھ سے بڑے ہیں مجھے پتا چلا کہ انہوں نے میرا نام پاکستان رکھا۔

اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ مجھے آدھی صدی سے تھا۔ مجھ پر قابض مغربیوں نے جو یہاں معاشی و طبقاتی تقسیم کی لکیر کھینچی تھی۔ جاتے ہوئے اس کے اثرات اتنے گہرے کر گئے کہ آج وہ مذہب جس نے آ کر غلاموں کو آقاؤں کے ساتھ ایک صف میں کھڑا کر دیا تھا آج اس کے نام پر بننے والی ریاست میں یہ تقسیم باقاعدہ مذہبی ڈھال میں پروان چڑھتی ہے۔

آغاز ہی میں میری اولاد میں سے کھاتے پیتے امیر کبیر ارباب اختیار نے میرے وسائل پر قبضہ جمانا شروع کر دیا اور فرق صرف یہ پڑا کہ وہ جو پہلے غیر مذہبی انگریز کے غلام تھے اب وہ اپنی ہم مذہب اور ہم وطن اشرافیہ کے غلام بنائے جانے لگے۔ کیونکہ نظام تو وہی تھا صرف بنام مذہب چہرے تبدیل ہوئے تھے۔

آہستہ آہستہ وقت گزرنے لگا۔ مذہبی تقسیم کی خلیج دونوں اطراف انسانی خون سے سیراب ہوتی رہی۔ تقسیم ایک تسلسل سے جاری رہنے والے سلسلے کا نام ہے۔ اور وہی ہوا اپنے بننے کے پہلے پچیس سالوں میں مجھے مزید تقسیم کر دیا گیا اور اس خطے پر میرے وجود کا ایک حصہ اور اس میں بستی میری ہی اولاد منافرت کے تجدید عہد کے ساتھ ایک نئے ملک میں تبدیل ہو گئے۔

مجھے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میری مزید تقسیم ہوئی۔ کچی آبادیوں اور سنگ و خشت کی بڑی بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تقسیم۔ امیر اور غریب کی تقسیم، وڈیرے اور ہاری کی تقسیم، چوہدری اور کمی کی تقسیم، سول اور فوجی کی تقسیم، افسر اور ماتحت کی تقسیم، اکثریت اور اقلیت کی تقسیم، پیر اور مرید کی تقسیم، مہاجر اور لوکل کی تقسیم، مستقل اور عارضی کی تقسیم، سٹاف اور افسرز کی تقسیم، عورت اور مرد کی تقسیم، میں ٹکڑوں میں بٹی ایک منقسم ماں ہوں۔

اشرافیہ کا تو ازل سے یہی کام ہے مجھے مگر حیرت اپنے ان بچوں پر ہوتی ہے جو نسل در نسل اس کے ہاتھوں کھلونے بن کر استعمال ہو کر بجائے ہر 14 اگست کو تجدید عہد کے پر سوز ساز چھیڑنے اور احساس زیاں کے نقارے بجانے کے وہ سڑکوں پر بے ہنگم جشن میں باجے بجاتے پھرتے ہیں۔

جن کے اجداد نے خون بہایا، ان کے والدین نے پسینہ اور اب وہ خون اور پسینے کے ساتھ آنسو بھی بہا رہے ہیں لیکن ان کے بچوں کی ننھی آنکھوں میں پلتی کرنوں سے مجھ میں امید سی جاگتی ہے کہ وہ جب اپنی کتابوں سے سر اٹھائیں گے تو اس اشرافیہ سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ اگر آزادی کا مطلب و مقصد یہ تھا جو ہم چار سو دیکھ رہے ہیں تو بہت مبارک لیکن اگر نہیں تو وہ مقصد ہمیں حاصل کرنا ہے۔

میری بوڑھی آنکھیں ترستی ہیں وہ منظر دیکھنے کو سماعت سے محروم ہوتے کان ترستے ہیں وہ صدائیں سننے کو جب یہ سوالات پوچھے جائیں کہ کیا آزادی کا مطلب و مقصد اس ملک میں ایک جاگیردارانہ نظام قائم کرنے کی آزادی تھی، ممبر رحمت للعالمین ص سے محض اپنے جمع و ضرب کی خاطر امت کو تقسیم و تفریق کرنے کی آزادی تھی۔ بھوکوں کو روٹی کے لیے ترسانے کی آزادی تھی، بیماروں کو شہروں کی طرف جاتے رستوں اور ہسپتالوں کے فرشوں پر ایڑھیاں رگڑتے مارنے کی آزادی تھی، مظلوموں کی آنکھوں کے سامنے ان کے خون پسینے سے چلتی عدالتوں کے ظالموں کے حق میں دستبردار ہونے کی آزادی تھی، ننھے معصوم ہاتھوں میں قلم کتاب کی جگہ اوزار پکڑانے کی آزادی تھی، کسی کی عزت، ناموس، جمع پونجی یا جان تک ہتھیا کر وکٹریوں کے نشان بنانے اور وارثوں پر مکروہ صلح کے لیے دباؤ ڈالنے کی آزادی تھی، غریب عوام کے خون پسینے سے چلتے ایوانوں میں عوام دشمن پالیسیاں بنانے اور عیش و عشرت کرنے کی آزادی تھی۔ جس کو چاہا جب چاہا توہین مذہب کے نام پر قتل کر دینے کی آزادی تھی، بندوق کے زور پر آئین سے لے کر ملک توڑنے کی آزادی تھی، کیا اغیار کی غلامی سے نکال کر اپنا غلام بنانے کی آزادی تھی۔ اور کیا یہ سب اس مذہب کے نام پر کرنے کی آزادی تھی جو آیا ہی ان سب کی تنسیخ کے لیے تھا؟

تمہاری دھرتی ماں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments