جولیس سیزر


تاریخ روما کے مشہور آرمی جنرلز میں سب سے منفرد مقام و مرتبہ رکھنے والا جنرل، سیاستدان اور خود کو ڈکٹیٹر کہلانے والا واحد شخص جولیس سیزر تھا جو روما کے جمہوری نظام کے ذریعے اقتدار تک پہنچا اور پھر اس نے تاریخ روما پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ سیزر نے بر سر اقتدار آتے ہی تمام روما کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور ساتھ ہی روما کی بنیادوں کو بھی ہلا دیا۔ عظیم جنگجو نے اس کے علاوہ اپنی جنگی مہارتوں اور تکنیکوں کا لوہا بھی منوایا۔ یوں تو سیزر کی روما پر حکومت قریبا ایک سال کے کم عرصے پر محیط ہے اور وہ اپنے سیاسی حریفوں کے ہاتھوں ہی قتل ہوا لیکن وہ تاریخ میں زندہ ہے۔ اس کے مشہور جنگی معرکوں میں گال اور سول وار آف روم شامل ہیں۔

سلطنت روما کا بغور مشاہدہ اور عملی زندگی کے دوران سیزر پر یہ منظر واضح ہوا کہ نہ صرف روم کے باہر بلکہ خود روم کے اندر خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو چکی تھی۔ نہ صرف اندرون روم میں بلکہ بیرون روم میں بھی رومیوں کو کئی ایک بغاوتوں کو سامنا کرنا پڑ رہا تھا جس کا قلع قمع کرنے کی خاطر سیزر کو میدان جنگ میں اترنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنت روما کی سرحدیں وسیع تر ہوتی جا رہی تھیں لیکن روم میں امن و امان کی صورتحال خاصی خراب ہوتی جا رہی تھی۔ رومیوں اور مفتوح علاقوں کے باسیوں کے میل جول اور معیشت میں عمل دخل سے روم میں تبدیلیاں جنم لے رہی تھیں۔ اس ساری بگڑی ہوئی صورتحال کے دوران سیزر نے ہسپانیہ میں بغاوت کو کچلنے کے بعد اس کی گورنر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ہسپانیہ اس وقت سلطنت روما کاہی ایک صوبہ تھا۔

ہسپانیہ میں قیام امن کے بعد سیزر جب روم واپس گیا تو اس نے اپنے ارد گرد سیاسی حلیفوں کو جمع کر لیے تھے۔ بتدریج اس کی سیاسی پوزیشن اور قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عسکری قوت تو اس کے ساتھ ہی تھی لیکن سیاسی قوت نے اس کے اثر و رسوخ اور پروفائل کو مزید مضبوط کر دیا۔ ایک وقت میں یہی سیاسی اتحاد نے سیزر کو گال کا گورنر بھی بننے میں کافی مدد کی۔ ماضی کے صوبہ گال میں آج کے فرانس اور بیلجیم کے علاقے شامل ہیں۔

ہسپانیہ اور گال پر اپنی سیاسی اور عسکری دھاک بٹھانے کے بعد سیزر کو واپس روم طلب کر لیا گیا۔ جب سیزر ہسپانیہ اور گال کی لوٹی ہوئی دولت کے ہمراہ روم میں داخل ہوا تو وہ اپنا سیاسی کیرئیر مکمل کرچکا تھا۔ اس دولت کا استعمال اس کی فوج پر خوب اچھے طریقے سے کیا گیا۔ اسی دولت سے فوج کے انتظامات کو مزید مستحکم کیا گیا جس سے رومن فوج اس کی گرویدہ ہو گئی۔ فوج کی تمام وفاداریاں سیزر کے ساتھ تھیں۔ سیزر کے بیرون روم فتوحات کے احوال جب روم پہنچتے تو رومی بھی اس کے پیروکاروں میں شامل ہونے لگے۔

سیزر کو اس کے سیاسی حلیف اور بعد میں حریف پومپی کی جانب سے روم واپسی کا حکم ملا کہ وہ بطور ایک نجی شہری واپس روم داخل ہو۔ اس حکم نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ایک شدید خانہ جنگی نے روم اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پومپی اور سیزر کی افواج نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ آخر کار پومپی کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔ اس جنگ میں شکست سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ روم پر سیزر کی حکمرانی یقینی تھی۔ پومپی بھی سیزر کی طرح ایک رومن جنرل ہی تھا جس کو تین با ر اس کے عسکری معرکوں کے نتیجے میں رومن کونسل منتخب کیا گیا۔ پومپی چونکہ لڑکپن میں ہی رومن فوج کا حصہ بن گیا تھا اور اس نے فن حرب میں خوب نام کمایا جس سے اس کے حریفوں نے اس کی خونریز جنگوں اور وحشیانیہ قتل عام پر ”ٹین ایج بچر“ کا لقب دیا۔

پومپی کی شکست کے بعد سیزر نے اپنی سیاسی و عسکری طاقت میں مزید اضافہ کیا اور اپنے لیے ڈکٹیٹر کا ٹائٹل منتخب کیا۔ اس کے انتظامی امور میں سینٹ کی وسعت شامل ہے۔ جولیس سیزر کے دور اقتدار میں مطلوبہ حکومتی اصلاحات بھی کی گئیں۔ سیزر نے مقروض روما کے قرض میں بھی کمی کی۔ افریقی شہر قرطاجنہ اور یونانی شہر کورنتھ کی دوبارہ از سر نو تعمیر، بحالی اور آباد کاری بھی اس کے انتظامی امور میں شامل ہے۔ سیزر سے پہلے وہ تمام علاقے جو رومن ایمپائر کے قبضے تلے اس کے حصے بنے تھے، ان کے شہری روم میں ایک عرصے سے رہائش پذیر تھے لیکن وہ رومن شہریت نہیں حاصل کر پائے۔ اہل روم ان کو اپنا غلام یا ماتحت ہی تصور کرتے تھے۔ لیکن سیزر نے اس اصول کو ختم کیا۔ اس نے تمام مفتوح علاقوں کے لوگ جو روم میں تھے ان کو رومن شہریت فراہم کی۔

سیزر کی بڑھتی ہوئی شہرت اور طاقت کو دیکھتے ہوئے رومن سینٹرز اس خدشے میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں سیزر اپنے آپ کو بادشاہ ہی نہ ڈکلیئر کردے۔ جب سیز ر نے اپنے آپ کو ”ڈکٹیٹر فار لائف“ کہلوایا تو اس کے ایک مہینے بعد ہی ایک انہونی ہو گئی۔ رومن سینٹرز کا ایک گروہ سیزر کے اس اقدام کو ہمیشہ کے لئے انجام تک پہنچانے اور رومن سینٹ کی ساکھ قائم کرنے کی خاطر اکٹھا ہوا جس میں مارکس جونیس بروٹس بھی شامل تھا۔ یہ وہی سینٹر تھا جس کو سیزر نے اپنا وارث نامزد کیا تھا۔

مارچ 44 ق م میں جب سیزر سینٹ کے ایک سیشن میں شرکت کے لئے تشریف لایا تو ایک سازشی سینٹر نے اسے ایک پٹیشن پیش کی جس میں اس کے ایک جلا وطن شہری کو دوبارہ روم میں داخل کیا جا نا تھا۔ پٹیشن کے پیش ہوتے ہی تمام سازشی سینٹرز سیزر کے گرد حصار بنا کر کھڑے ہو گئے جس سے ان کی مراد سیزر کی حمایت کا اعلان تھا۔ وہی سازشی درخواست گزار نے سیزر کی شال کو کھینچا جس پر سیزر چیخ اٹھا، ”یہ کیوں؟ ، یہ تو تشدد ہے۔“ اسی دوران پیچھے کھڑا سینٹر کاسکا اپنا خنجر سیزر کی گردن پر لے آیا۔

سیزر نے تیزی سے مڑ کر کاسکا کا بازو پکڑا۔ سیزر نے پھر پکارا، ”کاسکا! یہ تم کیا کر رہے ہو؟“ ۔ اتنی ہی دیر میں تمام سازشی سینٹرز بشمول بروٹس نے سیزر پر یکبارگی حملہ کر دیا۔ حملے سے بچنے کے لئے سیزر نے بھاگنے کی کشش کی لیکن تب تک وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑا۔ گرنے کے بعد بھی تمام قاتل اس پر خنجر کے وار کرتے رہے۔ مورخ کا کہنا ہے کہ سیزر پر کل 23 وار کیے گئے۔ سیزر جب زندگی موت کے درمیان بے یارو مددگار لیٹا ہوا تھا تو اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے، ”بروٹس، تم بھی؟“ اور یوں سیزر اپنے انجام تک پہنچا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments