یوکرین، روس جنگ: کس خوف نے ہزاروں یہودیوں کو روس چھوڑنے پر مجبور کیا؟

علیم مقبول - ریلیجن ایڈیٹر، بی بی سی نیوز


یہودی آبادی
روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس کو بڑے پیمانے پر اپنے ملک سے یہودی آبادی کی نقل مکانی کا سامنا ہے۔ ہر آٹھ میں سے کم از کم ایک یہودی ملک چھوڑ کر جا رہا ہے۔

’جوئیش ایجنسی‘ نامی تنظیم دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ مارچ سے لے کر اب تک روس کے 165,000 یہودیوں میں سے 20,500 حیران کُن طور پر روس چھوڑ کر اسرائیل آ گئے ہیں۔

جبکہ دیگر ہزاروں یہودی روس سے دوسرے ممالک بھی نقل مکانی کر گئے ہیں۔

بلاشبہ ان میں سے ہزاروں یہودیوں کے ذہنوں میں تاریخی ظلم ستم کا خوف موجود ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی اس نقل مکانی کا حصہ ہیں یا جو اب بھی ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماسکو میں کمیونزم کے زوال کے بعد سے یہودی برادری کی ترقی کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں۔ ان میں سب سے نمایاں پنچاس گولڈسمٹ تھے، جو سنہ 1993 سے شہر کے چیف راہب تھے۔

وہ روس میں یہودی برادری کی ترقی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ہم نے عبادت خانوں، سکولوں، کنڈرگارٹنز، فلاحی تنظیموں، اساتذہ، مذہبی راہبوں اور کمیونٹی کے افراد کے ساتھ مل کر اسے صفر سے شروع کیا تھا۔‘

مگر رواں برس یوکرین روس جنگ کے دو ہفتوں کے دوران ہی راہب گولڈ سمتھ اپنے اہلخانے کے ساتھ روس چھوڑ کر پہلے ہنگری اور بعدازاں اسرائیل چلے گئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا اور اس جنگ کے خلاف بات کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے محسوس ہوا کہ مجھے یوکرین پر حملے سے لاتعلقی اور اس کے خلاف اظہار کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے، لیکن اگر میں ایسا روس میں رہ کر کرتا تو یہ خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا۔‘

چند روسی یہودیوں نے ان پر ملک چھوڑ کر جانے اور اس کے خلاف بات کرنے پر تنقید کی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ اس سے وہاں بسنے والی یہودی آبادی کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ تاہم زیادہ تر نے راہب گولڈسمتھ کے یوکرین جنگ کے خلاف موقف کی حمایت کی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ‘مجھے کچھ ایسے پیغامات بھی موصول ہوئے جن میں کہا گیا کہ ’آپ ہمیں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ لیکن میں کہنا چاہوں گا کہ زیادہ تر آبادی نے میری حمایت کی، ملک چھوڑ کر جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ میرے اور میری بیوی کے لیے یہودی برادری ہی ہماری زندگی تھی۔‘

روسی راہب گولڈسمتھ کا کہنا ہے کہ ’اگر میں وہاں رہتا اور بولتا تو یہودی برادری کو خطرہ ہو سکتا تھا۔‘

مگر تب سے بہت سے افراد نے اُن کی تقلید کی ہے۔ بہت سے افراد نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کا رُخ کیا ہے جہاں واپسی کے قانون کے مطابق اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ آپ کی دادا دادی میں سے کم از کم ایک یہودی تھا تو آپ کو وہاں کی شہریت کا حق مل جاتا ہے۔

ٹورنٹو یونیورسٹی میں یہودی زبان کی پروفیسر اور روس میں یہودی تاریخ کی ماہر اینا شرنشیش کا کہنا ہے کہ ’میں اس بارے میں سوچ رہی تھی کہ ہمیں یہودیوں کے ملک چھوڑنے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ہمیں اب تک روس میں یہود مخالف جذبات نظر نہیں آئے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن اگر اسے میں یہودی تاریخ دان کی نظر سے دیکھوں تو جب بھی روس میں کچھ ہوا، کوئی تبدیلی یا اکھاڑ پچھاڑ ہوئی تو یہودی ہمیشہ خطرے میں رہے۔‘

وہ اس کی وضاحت دیتی ہیں کہ کیسے روسی تاریخی واقعات یہودیوں کے خلاف تشدد کا باعث بنے۔ مثال کے طور پر انقلاب، 19ویں صدی کے آخر میں معاشی بحران اور دوسری جنگ عظیم کے واقعات۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب نے ملک نہیں چھوڑا لیکن روس میں رہنا والا ہر یہودی اس بارے میں سوچ ضرور رہا ہے۔‘

پروفیسر شرنشیش خود بھی روس میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اسی طرح سے مایوسی ہوتی ہے جس طرح یہودیوں نے عالمی تاریخ میں ایک بار پھر محسوس کیا کہ انھوں نے کہیں زندگی گزارنے کے لیے خواہ کتنا ہی عزم کیا ہو، اسے اچانک چھین لیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

برازیل سے بے دخل 23 یہودی جنھوں نے نیو یارک کے قیام میں مدد کی

بغدادی یہودیوں کی عبادت گاہوں کے متولی مسلمان کیوں ہیں؟

وہ 90 منٹ جن میں لیا گیا فیصلہ یہودیوں پر قیامت بن کر ٹوٹا

وہ لڑکی جس کی ڈائری کو لاکھوں لوگ پڑھ چکے ہیں

الیگزینڈر (فرضی نام) جن سے ہم نے بات کی اور وہ ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ بالکل ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ الیگزینڈر نے فرضی نام کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ اب بھی ماسکو میں ہیں اور روس جنگ کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’24 فروری کے بعد میرے خاندان نے یہ محسوس کیا کہ ہم اس جنگ کے خلاف ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ ہم اس کے خلاف کیسے احتجاج کریں۔ میرے بچوں میں سے ایک ملٹری سروس کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں۔‘

ان کی آواز میں اپنا گھر اور ملک چھوڑنے کی تکلیف واضح ہے اور وہ بیرون ملک کام نہ ملنے اور اپنے پاس بچت کے زیادہ پیسے نہ ہونے کی پریشانی کے متعلق بات کرتے ہیں۔

لیکن پروفیسر شرنشیش کے خیال میں الیگزینڈر کی روس میں اپنے اہلخانہ کے متعلق پریشانی جنگ مخالفت سے بڑھ کر ہے۔

یہودی عبادت گاہ

الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ’روس میں حکام غیر متوقع ہیں اور یہودیوں کی جانب ان کا رحجان بُرا ہے، یہاں یہودی روائتی طور پر اندرونی دشمنوں کو تلاش کرنے کے طریقے کے طور پر ان کے پراپیگنڈہ کا ہدف بن جاتے ہیں۔ میرے پردادا، دادا اور دادی نے یہ سب کچھ برداشت کیا ہے۔‘

الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ وہ صرف دو ایسے یہودی خاندانوں کو جانتے ہیں اور روس کی یہودی برادری کا ان کی زندگی سے زیادہ لینا دینا نہیں رہا ہے۔ لیکن انھیں خدشہ ہے کہ وہ چاہے جتنے بھی روسی معاشرے میں گھل مل جائیں لیکن اگر یہودیوں کے خلاف مزاج تبدیل ہوا تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔

انھوں نے اسرائیلی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی ہے اور اگلے چند ہفتوں میں ان کا انٹرویو ہونا ہے۔ ایک چیز جس نے الیگزینڈر کو پریشان کیا ہے وہ کریملن کی جانب سے روس کی یہودی ایجنسی کو بند کرنے کے ارادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس بارے میں اچانک ہم نے خبروں میں دیکھا اور ہم حیران تھے کہ اب آگے کیا ہو گا؟ ہم خود کو بہت غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی نوکریاں کھو سکتے ہیں یا جیل جا سکتے ہیں۔ چیزیں بہت خوفناک ہو گئی ہیں۔‘

ہیری فارلے نے اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments