کیا جنرل باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہوں گے یا مئی 2023 میں؟


پاک فوج کے نئے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے قیاس آرائیاں زور شور سے جاری ہیں اور ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق ان کے جانشین کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت اس حوالے سے خاموش ہے اور آئی ایس پی آر نے چند ماہ پہلے صرف اتنا اعلان کیا تھا کہ جنرل باجوہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ موجودہ آرمی چیف 29 نومبر کو عہدہ چھوڑ دیں گے۔

یوں تو کسی بھی فوج کی کمان کے لئے تعیناتی معمول کے طریقہ کے مطابق عمل میں آتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک حتیٰ کی پاکستان کے سب سے بڑے مدمقابل بھارت میں بھی اگلا آرمی چیف کون ہو گا، کے سوال پر قبل از وقت مباحث دیکھنے میں نہیں آتے۔ ہر ملک کی فوج ایک منظم ادارہ ہوتا ہے جس میں سنیارٹی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں کے تجربہ و اہلیت کا مکمل ریکارڈ فراہم ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی افسر فوج کی کمان کا اہل ہوتا ہے۔

پاکستان سمیت متعدد ممالک میں چونکہ سیاسی قیادت یہ اہم تقرری کرنے کی مجاز ہوتی ہے، اس لئے یہ بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ سینئر کیڈر میں سے سینئر ترین جنرلز کو نظرانداز کر کے کسی جونئیر لیفٹیننٹ جنرل کو فوج کی کمان سونپ دی جائے۔ پاکستان میں یہ صورت حال متعدد بار دیکھنے میں آئی ہے جب وزیر اعظم نے اپنی صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کسی جونئیر جنرل کو ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا۔ اس عہدہ پر فائز ہونے والے جنرل سے سینئر جنرل اسی تاریخ سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ اس طریقہ سے فوج کے ڈسپلن اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی عکاسی ہوتی ہے۔ عسکری حلقوں میں کبھی وزیر اعظم کی جانب سے کسی جونئیر کو آرمی چیف بنانے کے بعد کوئی چپقلش یا بحث دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف کو دورہ سری لنکا کے دوران ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن جنرل مشرف نے اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ساتھی جنرلوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کو آرمی چیف کا طیارہ اغوا کیس میں عمر قید کی سزا دلوا دی جسے بعد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

حالیہ تاریخ میں پاکستانی وزرائے اعظم کی طرف سے اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لئے سینئیر جنرلز کو نظرانداز کر کے کسی جونئیر کو لگانے کے تجربے کامیاب تصور نہیں کیے جا سکتے۔ اس کی سب سے بھیانک مثال ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے جنرل ضیا الحق کو سنیارٹی کا اصول نظر انداز کرتے ہوئے آرمی چیف بنانے کا فیصلہ ہے۔ جنرل ضیا نے بعد میں نہ صرف بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ ان کی پھانسی کا سبب بھی بنے۔ جنرل ضیا الحق ملک میں سب سے طویل مدت تک حکمرانی کرنے والے آرمی چیف بھی رہے ہیں۔ اگست 1988 میں ایک فضائی حادثہ میں ہلاکت تک وہ ملک کے صدر اور فوج کے چیف کے عہدوں سے چمٹے رہے تھے۔

تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے مختلف ادوار میں پانچ آرمی چیفس کا تقرر کیا۔ ان میں جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ شامل ہیں۔ اس کے باوجود اقتدار کی کشمکش میں ان کی ہر آرمی چیف سے چپقلش رہی۔ انہوں نے پرویز مشرف کو متعدد جونئیرز پر ترجیح دے کر آرمی چیف بنایا تھا لیکن وہی ان کی حکومت کے خاتمہ کے علاوہ نواز شریف کی سیاست سے نا اہلی اور جلاوطنی کا سبب بھی بنے۔ جلاوطنی سے واپسی کے بعد جب انہیں 2013 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا تو بھی انہوں نے آرمی چیف کی تقرری کے لئے کسی خاص طریقہ کا تعین کرنے یا سنیارٹی کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرنے کی بجائے بالترتیب جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو جونئیر ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر کیا۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ڈان لیکس کے سوال پر شدید اختلاف پیدا ہوا تاہم ان کی حکومت محفوظ رہی البتہ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے دور میں انہیں سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں نا اہل قرار دے کر اقتدار سے محروم کیا۔ نواز شریف اس کی ذمہ داری جنرل باجوہ اور فوج پر عائد کرتے رہے ہیں۔ اب شہباز شریف کے ذریعے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو ایک بار پھر اسی ’پل صراط‘ کا سامنا ہے لیکن حالات کے مطالعہ سے یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس سلسلہ میں پارٹی یا شریف برادران نے کوئی سبق سیکھا ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار بھی یہ اہم فیصلہ کرتے ہوئے وہ کسی ’وفادار‘ کی تلاش میں ہی رہیں گے۔

سیاسی مقصد کے لئے کسی جونئیر کو ترقی دے کر سینئر جنرلز کو نظرانداز کرنے کی روایت صرف سویلین حکمرانوں ہی نے قائم نہیں کی بلکہ فوجی عہدے کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے والے سب فوجی سربراہوں نے طویل عرصہ تک آرمی چیف کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھا۔ یہ سب جنرل جانتے تھے کہ انہیں عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ فوج کو اپنی کمان رکھتے ہوئے ہی ملک کے اقتدار پر قابض رہ سکتے ہیں۔ ان میں ضیا الحق اور پرویز مشرف کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ضیا سے موت نے یہ اعزاز چھینا اور پرویز مشرف کو تبدیل شدہ سیاسی حالات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ کے نتیجہ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فوج کی کمان سونپنا پڑی تو ان کے لئے ملک کی صدارت پر فائز رہنا بھی ناممکن ہو گیا۔ یہ دونوں بالترتیب 12 اور 9 سال تک فوج کے آرمی چیف رہے۔ اس طریقہ سے فوج میں سنیارٹی کا اصول بھی متاثر ہوتا ہے اور اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے کی لگن موجودہ نہ رہنے کے باعث افسروں کے جوش و ولولہ پر اثر بھی پڑتا ہے۔ 1973 کے آئین میں مسلح افواج کے سربراہان کے لئے تین سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ لیکن فوج اور سیاست کے تال میل کی وجہ سے اس اصول پر شاذ و نادر ہی عمل ہوا ہے۔

نومبر 2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے جب جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دی تھی تو سپریم کورٹ نے قانونی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے اس حکم کو معطل کر دیا تھا۔ اور جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے لئے قومی اسمبلی کو خصوصی قانون سازی کرنا پڑی تھی۔ سپریم کورٹ کے اس حکم سے جانا جاسکتا ہے کہ اس سے پہلے اقتدار پر قابض فوجی سربراہان کسی قانونی جواز و بنیاد کے بغیر خود ہی آرمی چیف کے طور پر اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کرتے رہے تھے۔

موجودہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدہ کی مدت میں توسیع اس سال 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے ذریعے آرمی چیف یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اپنے عہدے کی مدت میں مزید توسیع نہیں چاہتے اور عہدہ کی مدت ختم ہونے پر ریٹائر ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملکی سیاست پر اسی تقرری کے اثرات کے خوف میں ہی متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں سرعت کا مظاہرہ کیا تھا کیوں کہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ عمران خان اپنی مرضی کا آرمی چیف لاکر اپوزیشن کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ فوج کی طرف سے تواتر سے اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ اور ان کے جانشین کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کا کوئی بھی تجزیہ نگار سیاسی معاملات میں فوجی اثر و رسوخ کو نظرانداز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مؤقر انگریزی روزنامہ ڈان نے دو روز پہلے نئے آرمی چیف کے حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ بھی شائع کی تھی۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری ملکی سیاست کے حوالے سے کس قدر اہم معاملہ ہے۔ تاہم اس حوالے سے کسی روایت شکن تبدیلی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

ملکی سیاست میں اس تقرری کی حساسیت کے پہلو کو پیش نظر رکھا جائے تو حکومت کو اس بے یقینی کے خاتمہ کے لئے نومبر سے بہت پہلے ہی نئے آرمی چیف کا اعلان کر دینا چاہیے۔ لیکن شہباز شریف کی حکومت سے ایسے حوصلہ مندانہ اور ہوشمندانہ اقدام کی امید نہیں ہے۔ یہی لگتا ہے کہ آخر وقت تک اس معاملہ کو لٹکایا جائے گا اور ماضی کی طرح کسی ’قابل اعتبار‘ جنرل کو اس عہدہ پر ترقی دے کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے لئے سیاسی آسانی یا تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگرچہ ماضی کے تجربات اس قسم کی عاقبت نا اندیشی کے کی تائید نہیں کرتے۔ اصولی طور سے حکومت کو نہ صرف اس معاملہ میں بے یقینی ختم کرنے کے لئے آرمی چیف تک ترقی کے لئے سنیارٹی کا وہی اصول نافذ کرنا چاہیے جس کا اطلاق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لئے ہوتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر ترین جج، چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔ اگر یہ اصول طے ہو جائے تو آرمی چیف تقرری کے حوالے سنسنی خیزی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جمہوری استحکام کے لئے اب یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی آرمی چیف کو عہدے کی مدت میں توسیع دینے کا طریقہ ختم کیا جائے تاکہ اعلیٰ ترین عہدے کے لئے ساری زندگی محنت کرنے والے افسروں کو یہ اعزاز حاصل کرنے کا مساوی موقع دستیاب ہو سکے۔

حکومت کی خاموشی اور اس سلسلہ میں اٹھائے جانے والے سوالات میں سب سے اہم البتہ یہ سوال ہے کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ واقعی 29 نومبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو کر کسی دوسرے کو کمان سنبھالنے کا موقع دیں گے۔ آئی ایس پی آر کے اعلان کے باوجود نئے آرمی چیف کی تقرری تک اس بارے میں بے یقینی موجود رہے گی۔ ایسی قیاس آرائیاں موجود رہی ہیں کہ شہباز شریف موجودہ فوجی قیادت کی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ سے اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہوئے تھے، اس لئے شاید جنرل باجوہ کو مزید تین سال کی توسیع کی پیش کش کی جائے اور وہ ملکی بحران کی موجودہ صورت حال میں اس ’پیش کش‘ کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ان قیاس آرائیوں کو حال ہی میں جنرل باجوہ کے دورہ لندن کے دوران نواز شریف سے ہونے والی خفیہ ملاقات کی افواہ نما خبروں سے بھی تقویت ملتی ہے۔ کسی باقاعدہ میڈیا ذریعے نے اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی لیکن حکومت یا فوج نے اس کی تردید کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

تاہم 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ایک تکنیکی نکتہ بھی موجود ہے۔ نومبر 2019 میں سپریم کورٹ نے جنرل باجوہ کو توسیع دینے والا سرکاری نوٹیفکیشن مسترد کر دیا تھا اور 28 نومبر 2019 کے حکم میں جنرل باجوہ کو 6 ماہ کی عبوری توسیع دینے کا حکم دیتے ہوئے حکومت سے اس معاملہ میں مناسب قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ قانون سازی جنوری 2020 میں کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم کے مشورہ پر صدر نے جنرل باجوہ کو مزید تین سال کے لئے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ تکنیکی لحاظ سے جنرل باجوہ کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلے ہی 6 ماہ کی توسیع مل چکی تھی۔ اس لئے نئی قانون سازی کے بعد کی جانے والی توسیع کا اطلاق 29 نومبر 2019 کی بجائے 29 مئی 2020 سے ہوا تھا۔ اس حساب سے جنرل باجوہ کے عہدے کی مدت نومبر کی بجائے آئندہ سال مئی میں ختم ہوگی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو نئے آرمی چیف کا فیصلہ بھی مئی 2023 میں ہی کرنا ہو گا۔

اگر یہ تکنیکی توجیہات درست ہیں اور جنرل باجوہ کے عہدے کی مدت درحقیقت مئی 2023 میں ختم ہوگی تو اس حوالے سے ابھی سے مباحث غیر ضروری اور بے مقصد ہوں گے۔ اس وقت مباحث میں جنرل فیض حمید سمیت جن چار پانچ سینئر جنرلز کے نام لئے جا رہے ہیں، جنرل باجوہ کے آئندہ سال مئی تک آرمی چیف رہنے کی صورت میں وہ اپنے عہدوں سے ریٹائر ہوچکے ہوں گے۔ اس وقت آرمی چیف کے عہدے کے لئے نئے نام سامنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments